کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 440
جب مسلمان جنگ سے فارغ ہوئے تو عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے شہر کے وسط میں جہاں قتال بند کیا تھا مسجد تعمیر کرنے کا حکم جاری کیا اور اس کا نام ’’مسجد رحمت‘‘ رکھا۔[1] اس قدیم دارالحکومت میں امن و امان بحال ہوا۔ مصریوں کے دلوں سے شکست کا احساس ختم ہوا، جو لوگ رومی حملے کے خوف سے بھاگ گئے تھے وہ واپس ہوئے اور قبطیوں کا بطریق بنیامین جو رومی حملے کی وجہ سے بھاگ گیا تھا اسکندریہ واپس آیا، اور عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے گزارش کرنے لگا کہ وہ قبطیوں سے کسی قسم کا مواخذہ نہ کریں کیوں کہ انہوں نے عہد و پیمان کی خلاف ورزی نہیں کی ہے، اسی طرح اس نے آپ سے گزارش کی کہ رومیوں سے مصالحت نہ کریں البتہ جب وہ مر جائے تو اس کو ’’یحنس‘‘ کنیسہ کے اندر دفن کرنے کی اجازت دے دیں ۔[2] ہر چہار جانب سے مصری باشندے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، رومیوں کے ظلم و ستم سے نجات دلانے پر ان کا شکریہ ادا کرنے لگے، اور آپ سے مطالبہ کیا کہ جنگ میں ان کے جو مال و مویشی لوٹے گئے ہیں اسے انہیں واپس کر دیا جائے پھر انہوں نے اپنی وفاداری اور اطاعت کا اعلان کیا اور کہا: رومیوں نے ہمارے مال و مویشی لوٹ لیے ہیں ، اور ہم نے آپ کی مخالفت نہیں کی ہے بلکہ مطیع رہے ہیں اس لیے ہمیں ہمارے مال و مویشی واپس دیے جائیں ۔ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے ان سے مطالبہ کیا کہ وہ لوگ اپنے اپنے دعویٰ پر دلیل و ثبوت قائم کریں ، جس نے ثبوت فراہم کیا اور اپنا مال پہچان لیا اس کو اس کے مال و مویشی واپس کر دیے گئے۔[3] عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے اسکندریہ کی فصیل کو منہدم کر دیا، یہ واقعہ ۲۵ھ کا ہے۔فصیل کو منہدم کر دینے کے باوجود اسکندریہ چہار جانب سے محفوظ و مامون ہو گیا۔ اسکندریہ سے مشرق و جنوب پر مسلمانوں کا قبضہ تھا جب کہ مغرب کی طرف برقہ، زویلہ، اور مغربی طرابلس کو عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے فتح کر کے جزیہ پر مصالحت کے عوض اس جہت کو مامون بنا لیا تھا، البتہ شمال کی طرف رومی پڑتے تھے، لیکن اولاً وہ اس قدر شکست خوردہ ہو چکے تھے کہ دوبارہ اس طرف رخ کرنے کی ہمت نہیں کر سکتے تھے، کیوں کہ ان کا کوئی معین و مددگار یہاں باقی نہ رہا تھا، اور پھر مسلم فوجیں پوری بیدار مغزی اور اہتمام کے ساتھ سمندر کی نگرانی پر لگی ہوئی تھیں ۔[4] فتح افریقہ: برقہ، طرابلس اور لیبیا کے بقیہ علاقوں پر حملے سے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا مقصد ملک کو فتح کرنا اور لوگوں کے دلوں سے رومانی طاغوت کو زائل کرنا تھا، تاکہ لوگوں کے سامنے راستہ واضح ہو جائے اور دین کو اختیار کرنے کی
[1] جولۃ تاریخیۃ ص (۳۳۸) [2] ایضًا ، ص (۳۴۵) [3] جولۃ تاریخیۃ ص (۳۴۵) [4] جولۃ تاریخیۃ ص (۳۴۱)