کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 439
منویل نقیوس پہنچا۔ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ اس سے مقابلہ کے لیے تیار ہوئے، اور اپنی فوج کو ترتیب دیا، اور ان کے ساتھ اس سرکش دشمن کے مقابلہ کے لیے نکلے اور نقیوس قلعے کے پاس نیل کے ساحل پر دونوں فوجیں صف آرا ہوئیں ، طرفین سے اپنی اپنی بہادری کا مظاہرہ کرایا گیا، دونوں فریق نے ڈٹ کر دشمن کا مقابلہ کیا جس سے جنگ کی شدت اور اشتعال میں اضافہ ہوا۔ یہ صورت حال دیکھ کر عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ دشمن کی صفوں میں گھس گئے اور اپنے گھوڑے کو ان کے گھوڑوں کے درمیان گھسا دیا، اپنی تلوار ان کی تلواروں کے درمیان لہرائی، اور لوگوں کے سروں اور سورماؤں کی گردنوں کو کاٹتے چلے گئے ایک وقت آیا جب آپ کے گھوڑے کو تیر لگا اور وہ ڈھیر ہو گیا، اس وقت آپ زمین پر آگئے اور پیادہ صفوں میں شامل ہو گئے۔ آپ کو اس حالت میں دیکھ کر مسلمان جنگ کے لیے شیروں کی طرح دل و جان سے ٹوٹ پڑے، تلواروں کی جھنکار ان کو خوف زدہ نہ کر سکی۔[1] مسلمانوں کے حملوں کے سامنے رومیوں کے عزائم پست ہو گئے اور ان کی قوتوں نے جواب دے دیا، وہ ان مسلم سورماؤں کے سامنے شکست خوردہ ہو گئے جو شہادت یا غنیمت کے طلب گار تھے، رومی اسکندریہ کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے تاکہ وہ اس کے مضبوط قلعوں اور بلند فصیلوں کے اندر اس موت سے بچ سکیں جو ان کا پیچھا کیے ہوئے تھی۔[2] رومیوں کی شکست دیکھ کر مصری نکل کھڑے ہوئے، اور مسلمانوں کے ان راستوں کو درست کرنے لگے جس کو دشمن نے تباہ و برباد کر دیا تھا، ان پلوں کی تعمیر کرنے لگے جس کو انہوں نے توڑ دیا تھا، اس دشمن پر مسلمانوں کی فتح دیکھ کر مصریوں نے اپنی خوشی کا اظہار کیا جس نے ان کی عزتوں کو لوٹا تھا، ان کے مال و جائداد کو برباد کیا تھا، اور مسلمانوں کے لیے اسلحے اور جنگی ساز و سامان فراہم کیا تھا۔[3] جب عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ اسکندریہ پہنچے تو اس کا محاصرہ کر لیا، منجنیقیں نصب کر دیں ، اور اسکندریہ کی فصیلوں پر گولہ باری کرتے رہے یہاں تک کہ وہ کمزور ہو گئیں ، اور گولہ باری کی شدت جاری رکھی یہاں تک کہ اسکندریہ کے لوگوں کی ہمت پست ہو گئی اور فصیلیں ٹوٹ گئیں ، اور اس محفوظ شہر نے اپنے دروازے ان کے سامنے کھول دیے، اور مسلمانوں اسکندریہ میں فاتحانہ طریقے سے داخل ہو گئے، اور رومیوں کو دل کھول کر قتل کیا عورتوں اوربچوں کو اسیر کیا، اور جو موت سے بچ نکلے وہ کشتیوں کی طرف بھاگے تاکہ اس طرح وہ اپنے مرکز کو واپس لوٹ جائیں ، اس جنگ میں منویل قتل ہوا۔ مسلمان برابر قتل و قید کرتے رہے یہاں تک کہ شہر کے وسط میں پہنچ کر عمرو ابن العاص رضی اللہ عنہ نے ان کو اس وقت جنگ سے رک جانے کا حکم دیا جب کہ مقابلے کے لیے ان کے سامنے کوئی باقی نہ رہا۔[4]
[1] جولۃ تاریخیۃ ص (۳۳۸) [2] البلاذری ص (۶۹) [3] جولۃ تاریخیۃ ص (۳۳۸) [4] ایضاً