کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 438
اس وقت عثمان رضی اللہ عنہ مصر سے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو معزول کر کے ان کی جگہ عبداللہ بن سعد بن ابی سرح رضی اللہ عنہ کو مقرر کر چکے تھے۔ اسی دوران رومیوں کا کمانڈر ان چیف ’’منویل خصی‘‘ نے اسکندریہ کا رخ کیا تاکہ اس کو مسلمانوں سے واپس لے، اس کے ساتھ بہت بڑا لشکر تین سو کشتیوں میں پورے جنگی سازو سامان کے ساتھ اسکندریہ پہنچا۔[1] اہل مصر کو خبر ملی کہ رومی فوج اسکندریہ پہنچ چکی ہے انہوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کو لکھا اور ان سے مطالبہ کیا کہ عمرو ابن العاص رضی اللہ عنہ کو واپس ان کی جگہ پر بحال کیا جائے تاکہ رومیوں کا مقابلہ کیا جا سکے، کیوں کہ انہیں اس کا طویل تجربہ ہے اور رومیوں کے دلوں میں عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی ہیبت سمائی ہوئی ہے۔ اہل مصر کے اس مطالبہ کو قبول کرتے ہوئے عثمان رضی اللہ عنہ نے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو مصر کی امارت پر بحال کر دیا۔[2] منویل کی فوج نے اسکندریہ میں خوب لوٹ مار مچائی، اور اس کو زمیں دوز کر کے اس کے ارد گرد بستیوں میں ظلم و فساد برپا کر دیا۔ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے انہیں ڈھیل دے دی تاکہ جس قدر فساد کرنا چاہیں کر لیں ، اور مصریوں کے سامنے مسلم حکمرانوں اور رومی حکمرانوں کے درمیان فرق بھی سمجھ میں آجائے، نیز ان کے دلوں میں رومیوں کے سلسلہ میں غیظ و غضب بھر جائے اور ان کے سلسلہ میں ذرا بھی محبت و شفقت ان کے دلوں میں باقی نہ رہے۔ منویل اسکندریہ سے اپنے لشکر کے ساتھ نکلا، اور زیریں مصر کا رخ کیا۔ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے خاموشی اختیار کی، کوئی نقل و حرکت شروع نہ کی اور نہ کسی نے رومیوں کا مقابلہ کیا۔ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے بعض ساتھیوں کو اس صورت حال پر تشویش لا حق ہوئی، لیکن عمرو رضی اللہ عنہ کی رائے کچھ اور تھی، ان کی رائے تھی کہ رومی خود ان کا رخ کریں ، کیوں کہ بلاشبہ اس دوران میں رومی مصریوں کا مال لوٹیں گے اور ان کے حق میں حماقتوں کا ارتکاب کریں گے جس کی وجہ سے مصریوں کے دلوں میں رومیوں کے خلاف بغض و عناد اور غیظ و غضب جنم لے گا، اور ایسی صورت میں جب مسلمان رومیوں کے مقابلے کے لیے اٹھیں گے تو مصری خود رومیوں کے خلاف ان کا تعاون کریں گے، چنانچہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے اپنی اس سیاست کی تحدید کرتے ہوئے فرمایا: رومیوں کو چھوڑو، ان سے چھیڑ چھاڑ نہ کرو، یہاں تک کہ وہ خود میرے پاس آئیں اس طرح وہ خود آپس میں ذلت و خواری اٹھائیں ۔[3] عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا اندازہ صحیح ثابت ہوا۔ رومیوں نے دل کھول کر لوٹ مار اور فساد مچایا۔ مصری ان کی کارستانیوں سے چیخ اٹھے، اور اس انتظار میں لگ گئے جو انہیں ان مفسدین کے شر سے نجات دلائے۔[4]
[1] جولۃ تاریخیۃ ص (۳۳۵) [2] ایضاً [3] جولۃ تاریخیۃ ص (۳۳۶) عثمان بن عفان؍ ہیکل ص: (۶۷) [4] ایضاً