کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 436
کشتیاں بڑی تعداد میں تھیں ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھ اپنی بیوی فاختہ بنت قرظہ کو بھی لیا، اسی طرح عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا کو اس غزوہ میں اپنے ساتھ رکھا۔[1]
مسلمان شام سے روانہ ہوئے اور عکا کی بندرگاہ سے سوار ہو کر قبرص کا رخ کیا، اور وہاں پہنچ کر مسلمان ساحل پر اترے، ام حرام آگے بڑھ کر اپنی سواری پر سوار ہونے لگیں ، اسی اثنا میں سواری بدک گئی اور ام حرام رضی اللہ عنہا زمین پر گر پڑیں ، ان کی گردن ٹوٹ گئی اور وفات پا گئیں ۔ [2]ام حرام رضی اللہ عنہا کو دفن کرنے کے بعد جزیرہ قبرص میں مسلمانوں نے ان قربانیوں کا ایک نشان چھوڑا جو انہوں نے دین کی نشر و اشاعت کے لیے پیش کیں ، آپ کی قبر وہاں نیک خاتون کی قبر سے معروف ہوئی۔[3]
معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک اجتماع کیا جن میں ابو ایوب خالد بن زید انصاری، ابودرداء، ابوذر غفاری، عبادہ بن صامت، واثلہ بن اسقع، عبداللہ بن بشر مازنی، شداد بن اوس بن ثابت، مقداد بن اسود، کعب الاحبار اور جبیر بن نفیر حضرمی رضی اللہ عنہم شامل تھے۔[4]
ان حضرات نے آپس میں مشورہ کیا اور اہل قبرص کو یہ پیغام بھیجا کہ اس جنگی مہم سے قبرص پر قبضہ کرنا ان کا مقصد نہیں ، بلکہ انہیں اللہ کے دین کی طرف دعوت دینا اور شام میں اسلامی حدود کا تحفظ مقصود ہے[5]کیونکہ بیزنطینی شام پر حملہ آور ہونے کے لیے قبرص کو جنگی اسٹیشن کے طور پر استعمال کرتے تھے، یہاں آرام کرتے اور وہاں سے رسد حاصل کرتے تھے۔ اس اعتبار سے یہ شام کے لیے خطرہ بنا ہوا تھا، اس کا اسی حالت میں باقی رہنا شام کے لیے خطرہ تھا، اگر مسلمان اس جزیرہ کو تابع کر کے اطمینان کی سانس نہ لیتے تو یہ ان کی پشت پر خنجر کی
[1] البدایۃ والنہایۃ (۷؍۱۵۹)
[2] البدایۃ والنہایۃ (۷؍۱۵۹)لیکن البدایہ والنہایہ کی عبارت اس کے خلاف ہے، جس کا ماحصل یہ ہے کہ فتح قبرص کے بعد جب وہاں سے واپسی ہونے لگی تو ام حرام رضی اللہ عنہا کے لیے خچر لایا گیا تاکہ وہ اس پر سوار ہو جائیں ، آپ اس سے گر پڑیں اور گردن ٹوٹ گئی، پھر وفات پا گئیں ، وہیں ان کی قبر ہے۔ یہاں مصنف کی عبارت اور البدایہ والنہایہ کے بیان کے مطابق ام احرام رضی اللہ عنہا کی وفات قبرص ہی میں ہوئی اور ان کو وہیں دفن کر دیا گیا، لیکن صحیح بخاری کی روایت اس کے خلاف ہے۔ صحیح بخاری میں ہے:
((فلما انصرفوا من غزوتہم قافلین فنزلوا الشام فقربت الیہا دابۃ لترکبہا فصرعت فماتت۔))
(البخاری: حدیث نمبر ۲۷۹۹؍۲۸۰۰)
’’جب قبرص کی جنگی مہم سے واپس ہوئے اور شام کے ساحل پر اترے تو ام حرام رضی اللہ عنہا کے لیے سواری پیش کی گئی وہ اس سے گر کر وفات پا گئیں ۔‘‘اس روایت سے واضح ہے کہ ام حرام رضی اللہ عنہا کی وفات شام کے ساحل پر پہنچ کر ہوئی تھی، پس ایسی صورت میں قبرص کے بجائے شام میں آپ مدفون ہوئیں ، چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ اس حالت میں دلیل ہے کہ ثواب کے اعتبار سے جہاد سے لوٹنے والا جہاد میں جانے والے کے حکم میں ہے۔ (الفتح : ۶؍۷۳) (مترجم)
[3] جولۃ تاریخیۃ فی عصر الخلفاء الراشدین ص (۳۵۷)
[4] جولۃ تاریخیۃ فی عصر الخلفاء الراشدین ص (۳۵۷)
[5] ایضاً