کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 435
پر چھوٹی مخلوق سوار ہو رہی ہے، اگر وہ ٹھہر جائے تو دل پھٹ جائے، اور اگر حرکت میں آجائے تو عقلوں کو حیران کر دے، اس کے اندر یقین میں کمی آتی ہے اور شک میں اضافہ ہوتا ہے، لوگ لکڑی کے اوپر کیڑے کی طرح ہوتے ہیں ، اگر مائل ہو جائے تو ڈوب جائیں اور بچ جائیں تو خوش ہو جائیں ۔ جب عمر رضی اللہ عنہ نے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی یہ تحریر پڑھی تو معاویہ رضی اللہ عنہ کو لکھا: ’’سمندری جنگ کی اجازت نہیں ، اس ذات کی قسم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا میں کبھی کسی مسلمان کو سمندر پر سوار نہ کروں گا۔ اللہ کی قسم ایک مسلمان میرے نزدیک روم کے مال و متاع سے زیادہ محبوب ہے، خبردار اب ایسا مطالبہ مجھ سے نہ کرنا۔ میں نے تم کو پیشگی بتلا دیا، علاء کو میری طرف سے جو لاحق ہوا وہ تمھیں بخوبی معلوم ہے، حالاں کہ اس سلسلہ میں میں نے پیشگی ان سے کچھ نہیں کہا تھا۔[1] عمر رضی اللہ عنہ کے اس نظریہ سے معاویہ رضی اللہ عنہ مطمئن نہ ہوئے، اور روم سے متعلق اپنی رائے پر قائم رہے اور اس کو فتح کرنے کی خواہش آپ کے اندر باقی رہی، چنانچہ جب عثمان رضی اللہ عنہ مسند خلافت پر جلوہ افروز ہوئے تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس سلسلہ میں گفتگو شروع کی، اور عثمان رضی اللہ عنہ سے اس کی اجازت دینے پر اصرار کیا، عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کے جواب میں فرمایا: میں اس وقت موجود تھا، جب تم نے عمر رضی اللہ عنہ سے بحری جنگ کی اجازت طلب کی تھی اور انہوں نے اس کا تمھیں جو جواب دیا تھا۔ پھر دوبارہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے آپ کو اس سلسلہ میں لکھا اور قبرص تک سمندری سفر کو آسان اور معمولی ظاہر کیا، اس کے جواب میں عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کو لکھا کہ اگر تم اپنے ساتھ اپنی بیوی کو لے جاتے ہو تو اجازت ہے ورنہ نہیں ۔[2]اسی طرح عثمان رضی اللہ عنہ نے اجازت دیتے ہوئے یہ شرط لگائی کہ نہ تو اس مہم کے لیے لوگوں کا انتخاب جبراً کریں گے اور نہ قرعہ کے ذریعے سے، بلکہ لوگوں کو اختیار ہو گا کہ جو خود شریک ہونا چاہے اس کو اپنے ساتھ لے جائیں ، اور اس کا خیال رکھیں ۔[3] جب معاویہ رضی اللہ عنہ نے عثمان رضی اللہ عنہ کا خط پڑھا تو قبرص پر بحری چڑھائی کی تیاری شروع کر دی، اور ساحلی علاقوں کے لوگوں کو فرمان جاری کیا، کشتیاں درست کر لیں اور ’’عکا‘‘ کے ساحل کے قریب لائی گئیں تاکہ وہاں سے مسلمان قبرص کی طرف روانہ ہوں ۔[4] قبرص کی جنگ: معاویہ رضی اللہ عنہ نے غازیوں کے لیے کشتیاں تیار کیں اور ’’عکا‘‘ کی بندرگاہ کو روانگی کے لیے منتخب فرمایا،
[1] تاریخ الطبری (۵؍۲۵۸) [2] الادارۃ العسکریۃ فی الدولۃ الاسلامیۃ؍د۔سلیمان بن صالح (۲؍۵۳۸) [3] تاریخ الطبری (۵؍۲۶۰) [4] الادارۃ العسکریۃ فی الدولۃ الاسلامیۃ (۲؍ ۵۳۸)