کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 433
بلنجروالوں سے گٹھ جوڑ کیا بلنجر کے لوگ نکلے اور ان کے ساتھ ترک بھی آکر مل گئے اور قتال کیا۔ عبدالرحمن بن ربیعہ نے جن کو ذوالنور کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا جام شہادت نوش کر لیا، اور مسلمان شکست خوردہ ہو گئے اور میدان کو چھوڑ دیا، جو لوگ سلمان بن ربیعہ کی طرف سے نکلے انہوں نے ان کی حفاظت کی یہاں تک کہ باب سے نکل گئے، اور جو لوگ خزر کے علاقے سے نکلے وہ لوگ جیلان اور جرجان پہنچ گئے، جہاں سلمان فارسی اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما تھے۔[1]
یزید بن معاویہ کا قتل:
عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں اہل کوفہ کئی سال تک بلنجر پر حملہ کرتے رہے، نہ تو کوئی عورت ان کی بیوہ ہوئی اور نہ ان حملوں کی وجہ سے کوئی بچہ یتیم ہوا، یہاں تک کہ خلافت عثمانی کے نویں سال حملہ سے دو روز قبل یزید بن معاویہ نے خواب دیکھا کہ ایک انتہائی خوبصورت ہرن ان کے خیمے کے پاس لایا گیا، ایسا خوبصورت ہرن انہوں نے کبھی نہیں دیکھا تھا، انہوں نے اس کو اپنے لحاف میں لپیٹ لیا، پھر ایک قبر لائی گئی اس پر چار افراد کھڑے تھے ایسی خوبصورت اور سیدھی قبر کبھی دیکھی نہیں گئی، پھر اس ہرن کو اس میں دفن کر دیا گیا۔
جب ترکوں پر لوگوں نے حملہ کیا تو ایک پتھر آکر یزید کو لگا جس سے ان کا سر پھٹ گیا، ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ان کے کپڑے خون سے آلودہ ہونے کے بجائے مزین ہو گئے ہیں ، خود ہی وہ ہرن تھے جس کو خواب میں دیکھا تھا۔[2]
یزید رحمہ اللہ بڑے نرم مزاج اور خوبصورت تھے، یہ خبر جب عثمان رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو فرمایا: انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔ کوفہ والے شکست خوردہ ہو گئے، اللہ ان کو معاف فرمائے اور فتح نصیب فرمائے۔[3]
تمہاری سفیدی میں خون کی سرخی کتنی حسین ہے:
عمرو بن عتبہ سفید قبا پہنے ہوئے تھے، اور اس سے کہہ رہے تھے کہ تمہاری سفیدی میں خون کی سرخی کتنی حسین ہے۔ چنانچہ دشمن سے مڈبھیڑ کے وقت ان کو زخم لگا تو اپنی قبا کو ویسے ہی پایا جیسی خواہش ظاہر کی تھی اور شہید ہو گئے۔[4]
کپڑوں پر خون کی چمک کتنی حسین لگتی ہے:
قرشع کہا کرتے تھے: کپڑوں پر خون کی چمک کتنی حسین لگتی ہے، چنانچہ مقابلہ کے دن پوری جواں مردی سے لڑے، یہاں تک کہ نیزوں سے آپ کا جسم پھاڑ دیا گیا، آپ کی قباء ایسی لگتی تھی کہ گویا سفید کپڑے پر سرخ بیل بوٹے بنائے گئے ہوں ۔ لوگ مسلسل مقابلہ پر ڈٹے ہوئے تھے، یہاں تک کہ آپ زخمی ہو گئے، پھر آپ کے
[1] تاریخ الطبری: (۵؍۳۰۹)
[2] ایضًا: (۵؍۳۱۰)
[3] تاریخ الطبری: (۵؍۳۱۱)
[4] تاریخ الطبری: (۵؍۳۱۰)