کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 432
طبرستان پر ۳۰ھ میں سعید بن العاص رضی اللہ عنہ کی چڑھائی: ۳۰ھ میں سعید بن العاص رضی اللہ عنہ خراسان پر چڑھائی کے لیے روانہ ہوئے، آپ کے ساتھ حذیفہ بن الیمان اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین بھی تھے۔ ان میں حسن، حسین، عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن عمرو بن العاص اور عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہم اجمعین بھی تھے، اور بصرہ سے عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے خراسان کا رخ کیا، وہ سعید بن العاص رضی اللہ عنہ سے قبل پہنچ گئے اور ’’ابرشہر‘‘ میں قیام فرمایا: اس کی اطلاع سعید بن العاص رضی اللہ عنہ کو مل گئی، لہٰذا انہوں نے ’’قومیس‘‘ میں قیام کیا جن سے صلح ہو چکی تھی۔ اور یہ وہی صلح تھی جو حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے نہاوند کے بعد ان سے کی تھی۔ وہاں سے آپ نے ’’جرجان‘‘ کا رخ کیا، اور ان سے دو لاکھ پر مصالحت کر لی، پھر ’’طمیسہ‘‘ پہنچے، یہ سب طبرستان وجرجان کے علاقے تھے، یہ ساحل سمندر پر آباد شہر تھا اور جرجان کے حدود میں تھا۔ آپ نے ان سے قتال کیا یہاں تک کہ نماز خوف ادا کی۔ جب نماز کا وقت آیا تو سعید بن العاص رضی اللہ عنہ نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح خوف کی نماز ادا کی تھی۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے انہیں نماز خوف کی کیفیت بتلائی، تو انہوں نے لوگوں کو نماز خوف پڑھائی اور قتال جاری رکھا، اس دن سعید نے مشرکین میں سے ایک شخص کے کندھے پر ضرب لگائی تو تلوار کہنی کے نیچے سے نکل گئی آپ نے ان لوگوں کا محاصرہ کر لیا۔ ان لوگوں نے آپ سے امان طلب کی، آپ نے ان لوگوں کو اس شرط پر امان دے دی کہ ان میں سے ایک شخص کو قتل نہیں کریں گے۔ ان لوگوں نے قلعہ کھول دیا آپ نے ایک شخص کو چھوڑ کر ان کو قتل کر دیا، اور جو کچھ قلعہ میں تھا اس پر قبضہ کر لیا۔ بنو نہد کے ایک شخص کو ایک جامعہ دان ملا جس پر تالا لگا ہوا تھا، اس نے سمجھا اس میں جواہرات ہوں گے۔ سعید کو اس کی خبر ملی، آپ نے نہدی کو بلا بھیجا، وہ جامعہ دان (صندوق) کے ساتھ حاضر ہوا۔ اس کا تالا توڑا گیا تو اس کے اندر ایک اور جامہ دان (صندوق) نکلا، جب اس کو کھولا گیا تو اس میں سے ایک زرد کپڑے کا ٹکڑا ملا جس کے اندر کمیت و ورد (زعفران) تھا۔[1] ۳۲ھ میں ’’باب‘‘ اور ’’بَلَنْجَر‘‘ پر حملہ: امیر المومنین عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے سعید بن العاص رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ سلمان کو باب پر چڑھائی کے لیے روانہ کرو، اور عبدالرحمن بن ربیعہ کو جو باب پر مقرر تھے لکھا: لوگ تھک چکے ہیں لہٰذا رک جاؤ آگے نہ بڑھو، اور مسلمانوں کو جوکھم میں مت ڈالو مجھے خوف ہے کہ کہیں وہ اور آزمائش میں مبتلا نہ ہو جائیں ، لیکن اس چیز نے عبدالرحمن کو ان کے عزائم سے نہ روکا، وہ بلنجر پر حملہ کرنے سے رک نہیں سکتے تھے، چنانچہ انہوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے نویں سال بلنجر پر حملہ کر دیا اور وہاں پہنچ کر اس کا محاصرہ کر لیا اور اس پر منجنیق اور پتھر برسانے کے آلات نصب کر دیے، جو بھی اس سے قریب ہوتا یا تو اس کو زخمی کر دیتے یا قتل کر دیتے۔[2]پھر ایک دن ترکوں نے
[1] تاریخ الطبری: (۵؍۲۷۰)۔ [2] تاریخ الطبری: (۵؍۳۰۸)