کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 431
دس ہزار مجاہدین قتال کے لیے نکلتے، اس طرح ہر چار سال بعد ایک شخص کی جہاد میں شرکت کی باری آتی۔ جب امیر المومنین عثمان نے ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کو کوفہ کا گورنر مقرر کیا تو آذر بیجان کے لوگوں نے معاہدہ توڑ دیا، اور عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے جن باتوں پر مصالحت کی تھی اس سے مکر گئے، اور اپنے والی عتبہ بن فرقد کے خلاف بغاوت کر دی۔ اس صورت حال میں عثمان نے ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کو فرمان جاری کیا کہ ان پر چڑھائی کرو، ولید رضی اللہ عنہ نے اپنے جرنیل سلمان بن ربیعہ باہلی کو تیار کیا، اور مقدمۃ الجیش کے طور پر ایک فوجی دستہ کے ساتھ روانہ کیا، اور پھر ولید خود مجاہدین کو لے کر نکلے، جب آذربیجان والوں کو اس نقل و حرکت کی اطلاع ملی تو وہ جلدی سے ولید سے آکر ملے، اور انہی شروط پر مصالحت کی پیش کش کی جن پر حذیفہ رضی اللہ عنہ سے کی تھی۔ ولید رضی اللہ عنہ نے اس پیش کش کو منظور کر لیا اور ان سے سمع و طاعت کا عہد لیا۔ ان کے گرد و نواح میں فوجی دستے روانہ کیے اور ان پر حملے کیے، چنانچہ عبداللہ بن شبیل احمسی کی قیادت میں چار ہزار مجاہدین کو ’’موقان‘‘، ’’ببر‘‘ اور ’’طیلسان‘‘ کی طرف روانہ کیا، بہت سا مال غنیمت اور قیدی ہاتھ آئے، لیکن وہ لوگ بچ گئے اور ان کی اچھی طرح گوشمالی نہ ہو سکی۔ پھر سلمان باہلی کو بارہ ہزار مجاہدین کے ساتھ آرمینیہ روانہ کیا انہوں نے زیر کیا اور وہ بہت زیادہ مال غنیمت کے ساتھ واپس ہوئے۔ اس کے بعد پھر ولید رضی اللہ عنہ کوفہ واپس ہو گئے۔[1] آذربیجان کے لوگ بار بار بغاوت کرتے رہے، چنانچہ آذر بیجان کے حاکم اشعث بن قیس نے ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کو صورت حال سے مطلع کیا۔ ولید نے کوفہ سے فوج روانہ کی اور اشعث نے باغیوں کا پیچھا کیا، اور ان کو شکست فاش دی۔ انہوں نے صلح کا مطالبہ کیا۔ چنانچہ اشعث نے ان سے پہلی صلح کی شرائط پر صلح کر لی۔ اشعث کو اندیشہ لاحق ہوا کہ کہیں یہ لوگ پھر شرارت نہ کریں ، لہٰذا انہوں نے عربوں پر مشتمل مستقل فوج مقرر کی، ان کے وظیفے جاری کیے اور دیوان میں ان کے نام رجسٹرڈ کیے اور ان کے ذمہ لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دینے کی ذمہ داری سونپی۔ لیکن جب سعید بن العاص رضی اللہ عنہ حاکم مقرر ہوئے تو آذربیجان والوں نے پھر بغاوت کر دی، چنانچہ آپ نے جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کو ان کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا، آپ نے انہیں شکست دی اور ان کے سرغنہ کو قتل کر دیا۔ بعد ازیں جب وہاں کے اکثر لوگوں نے اسلام قبول کر لیا اور قرآن سیکھ لیا تو وہاں امن و استقرار پیدا ہو گیا۔ کوفہ پر ابو موسیٰ اشعریٰ رضی اللہ عنہ کی گورنری کے دور میں امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں فرمان جاری کیا کہ وہ ’’رے‘‘ پر ان کی بغاوت کے پیش نظر چڑھائی کر دیں ، چنانچہ آپ نے قرظہ بن کعب انصاری کو ان کی طرف روانہ کیا انہوں نے دوبارہ اسے فتح کر لیا۔[2]
[1] تاریخ الطبری (۵؍۲۴۶) [2] الخلافۃ والخلفاء الراشدون ، ص (۲۲۴)