کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 430
چوتھا باب عہد عثمانی کی فتوحات عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے قتل کی خبر سے اعدائے اسلام کے حوصلے بلند ہو گئے، خاص کر اہل روم و فارس میں اپنے گنوائے ہوئے ملکوں کو دوبارہ حاصل کرنے کی طمع پیدا ہوئی، چنانچہ یزدگرد شاہ فارس نے سمرقند کی راجدھانی ’’فرغانہ‘‘ میں اپنی پلاننگ شروع کی، اور رومی قائدین جو شام سے بھاگ کر قسطنطنیہ میں منتقل ہو چکے تھے وہ عہد عثمانی میں شام کو واپس لینے کا خواب دیکھنے لگے اور اس کے لیے منصوبہ تیار کرنے میں لگ گئے، مصر میں رومیوں کی بچی کھچی فوج اسکندریہ میں قلعہ بند ہو چکی تھی۔ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے اس پر چڑھائی کرنے کی اجازت طلب کی تھی۔ رومیوں نے منصوبہ بند طریقے پر اپنے آپ کو محفوظ کر رکھا تھا، دیواروں پر منجنیق نصب کر رکھے تھے۔ ہر قل نے بذات خود قتال میں حصہ لینے کا عزم کر رکھا تھا اور کوئی رومی اس سے پیچھے نہیں رہ سکتا تھا کیوں کہ اسکندریہ ان کی آخری پناہ گاہ تھی۔[1] عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں رومی اسکندریہ میں جمع ہوئے، اور دوبارہ قابض ہونے کے لیے منصوبہ بندی شروع کر دی، یہاں تک کہ انہوں نے معاہدہ مصالحت کو توڑ دیا اور روم کی بحری طاقت سے مدد لی۔[2]چنانچہ تین سو بحری جہاز فوج اور اسلحہ کے ساتھ ان کی مدد کو پہنچ گئے۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے ان تمام حالات کا مقابلہ عزم و حوصلہ پر مبنی سیاست سے کیا جو درج ذیل طریقہ کار پر مشتمل تھا: ۱۔ باغی روم و فارس کو تابع کرنا اور اسلامی سلطنت کو ان ممالک پر دوبارہ غالب کرنا۔ ۲۔ دشمنوں کی امدادی لائن کو منقطع کرنے کے لیے ان کے پیچھے واقع علاقوں میں جہاد و فتوحات کو جاری رکھنا۔ ۳۔اسلامی ممالک کی حمایت و حفاظت کے لیے مستقل عسکری مراکز قائم کرنا۔ ۴۔ اسلامی فوج کی ضرورت کی خاطر بحری فوج تیار کرنا۔[3] (۱)… مشرق کی فتوحات فتوحات اہل کوفہ: آذربیجان ۲۴ھ: اہل کوفہ کا مرکز جہاد ’’رے‘‘ اور ’’آذر بیجان‘‘ تھا، ان دونوں مقامات پر دس ہزار مجاہدین مرابط تھے۔چھ ہزار آذر بیجان میں اور چار ہزار ’’رے‘‘ میں ، کوفی احتیاطی فوج چالیس ہزار مجاہدین پر مشتمل تھی، ان میں سے ہر سال
[1] الخلافۃ و الخلفاء الراشدون ص (۲۲۱) [2] جولۃ تاریخیۃ فی عصر الخلفاء الراشدین ص (۳۲۴) [3] الخلافۃ والخلفاء الراشدون ص (۲۲۲)