کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 429
لیکن اگر گواہ نہیں بنایا اور نہ بچے کے حوالہ کیا تو یہ عطیہ نافذ نہیں ۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ اپنی اولاد کو عطیہ دیتے ہیں پھر اگر اولاد کا انتقال ہو جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ تو میرا مال ہے اور میرے قبضے میں ہے اور اگر خود اس کا انتقال ہوتا ہے تو کہتا ہے کہ میں نے اس کو ہبہ کر دیا ہے، ہبہ و عطیہ وہی ثابت ہو گا جو بچے کے قبضہ میں ہو۔[1] ۷۔ بے وقوف کے تصرف پر حکم امتناعی: عثمان رضی اللہ عنہ بے وقوف کے تصرف پر حکم امتناعی کے حق میں تھے چنانچہ عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما نے ساٹھ ہزار دینار میں ایک زمین خریدی، اس کی اطلاع علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو پہنچی، آپ کے خیال میں یہ زمین اتنی قیمت کے لائق نہ تھی اور عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے اس میں صریح دھوکا کھایا ہے، بلکہ بے وقوفوں کا سا تصرف کیا ہے۔ آپ نے یہ ارادہ ظاہر فرمایا کہ وہ امیر المومنین عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس جائیں گے اور عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کے تصرف پر حکم امتناعی نافذ کرا دیں گے۔جب عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما کو اس کی خبرملی تو وہ جلدی سے زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے پاس گئے جو ماہر تاجر تھے اور عرض کیا میں نے اتنے میں یہ زمین خریدی ہے اور علی رضی اللہ عنہ کا ارادہ ہے کہ وہ عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس جا کر مجھ پر حکم امتناعی نافذ کرا دیں گے۔ زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا میں اس بیع میں تمہارا شریک ہوں ۔ علی رضی اللہ عنہ عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا: میرے بھتیجے نے ایک بنجر زمین ساٹھ ہزار میں خرید لی ہے مجھے اگر وہ جوتے کے عوض ملے تو بھی نہ لوں لہٰذا آپ اس پر حکم امتناعی نافذ کر دیں اور زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا میں اس کا اس بیع میں شریک ہوں ۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بھلا میں ایسے شخص کی بیع پر حکم امتناعی کیسے لگاؤں جس کے شریک زبیر ہوں ۔[2]یعنی میں عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما پر ایسے تصرف کی وجہ سے بے وقوفی اور سفاہت کا حکم نہیں لگا سکتا جس تصرف میں زبیر شریک ہوں کیوں کہ زبیر رضی اللہ عنہ انتہائی ماہر تاجر ہیں ان سے ممکن نہیں کہ وہ بے وقوفی اور سفاہت کے تجارتی تصرف میں شریک ہوں ۔[3] ۸۔ ذخیرہ اندوزی کی حرمت: سیّدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ذخیرہ اندوزی سے روکتے اور منع کرتے تھے۔[4]بظاہر عثمان رضی اللہ عنہ اس سلسلہ میں اپنے پیش رو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے منہج پر قائم تھے خواہ غلہ میں ہو یا دوسری اشیاء میں ، ان کے مابین تفریق کے قائل نہ تھے کیوں کہ آپ کی ممانعت عام تھی۔ خاص کر اس لیے کہ ذخیرہ اندوزی کی تحریم سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی بعض نصوص مطلق اور بعض مقید ہیں اور ان میں کوئی تعارض نہیں ، اس لیے مطلق اپنے اطلاق پر باقی رہے گا۔[5] (مزید تفصیل دیکھیے، سیرت عثمان: ۲۱۷)
[1] الفتاوی: (۳۱؍۱۵۴) [2] سنن البیہقی (۶؍۶۶۱) [3] موسوعۃ فقہ عثمان بن عفان ص (۱۱۹) [4] موطا مالک (۲؍۶۵۱) [5] موسوعۃ فقہ عثمان بن عفان ص (۱۵)