کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 427
لہٰذا باجماع مسلمین یہ سنت ہے۔[1] ۲۔ اسلام لانے کے بعد یومیہ غسل: عثمان رضی اللہ عنہ نے جب سے اسلام قبول کیا اپنا معمول بنا لیا تھا کہ آپ یومیہ غسل فرماتے تھے۔[2]ایک دن آپ نے لوگوں کو صبح کی نماز پڑھائی بعد میں دیکھا کہ آپ کے کپڑوں میں احتلام کے آثار ہیں ، فرمایا: واللہ میں بوڑھا ہو چکا ہوں مجھے جنابت لا حق ہوتی ہے اور پتہ بھی نہیں چلتا، پھر آپ نے نماز دہرائی [3]لیکن مقتدیوں نے نماز نہیں دہرائی۔[4] ۳۔ حج تمتع سے ممانعت: عثمان رضی اللہ عنہ نے افضل پر عمل کی خاطر لوگوں کو تمتع و قران سے منع کر دیا تھا آپ افراد کو افضل سمجھتے تھے ورنہ آپ پر یہ مخفی نہیں تھا کہ انسان کو اس بات کا اختیار ہے کہ افراد، قران اور تمتع میں سے جس کو چاہے اختیار کرے، لیکن آپ افضل پر عمل کرانا چاہتے تھے۔ تمتع و قران کا ابطال مقصود نہیں تھا۔ چنانچہ مروان بن حکم سے مروی ہے کہ میں عثمان وعلی رضی اللہ عنہما کے پاس موجود تھا۔ عثمان رضی اللہ عنہ لوگوں کو تمتع و قران سے روک رہے تھے جب علی رضی اللہ عنہ نے یہ کیفیت دیکھی تو حج و عمرہ کا ایک ساتھ تلبیہ پکارا اور فرمایا: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو کسی کے قول کی بنیاد پر نہیں چھوڑ سکتا۔[5] عثمان رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ کے اس موقف پر نکیر نہیں فرمائی کیوں کہ علی رضی اللہ عنہ کو یہ خطرہ لاحق ہو گیا تھا کہ کہیں لوگ عثمان رضی اللہ عنہ کی اس ممانعت سے تمتع قران کو باطل نہ سمجھنے لگیں اس لیے آپ نے حج و عمرہ کا احرام باندھتے ہوئے فرمایا میں کسی کے قول کی بنیاد پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو نہیں چھوڑ سکتا تاکہ اس کے جواز و سنت کو واضح کر دیں بہرحال دونوں ہی مجتہد اور اجر کے مستحق ہیں ۔[6] محرم کے لیے خشکی کا شکار کرنا اور اس شکار کو کھانا جائز نہیں اسی طرح خشکی کے اس شکار کو کھانا بھی جائز نہیں ہے جس کو اسی کی خاطر شکار کیا گیا ہو۔ عبدالرحمن بن حاطب سے روایت ہے کہ انہوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ عمرہ کیا جب مقام روحاء پر پہنچے تو ان کے لیے پرندے کا گوشت پیش کیا گیا، عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا آپ لوگ
[1] حقبۃ من التاریخ؍ عثمان الخمیس ص (۸۸) یہاں یہ کہنا کہ کسی نے مخالفت نہیں کی صحیح نہیں خود صحابہ میں سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی نے اس کی مخالفت کی تھی۔ دیکھیے: فتح الباری۔لہٰذا اس کو اجماعی مسئلہ کہنا صحیح نہیں ہے۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ جن حالات اور ظروف میں عثمان رضی اللہ عنہ نے اس اذان کا حکم دیا تھا ان حالات میں اس پر عمل کیا جائے گا لیکن دور حاضر میں یہ حالات نہیں رہے۔ لاؤڈ اسپیکر کی ایجاد اور مساجد کی کثرت نے اس کی ضرورت کو ختم کر دیا ہے لہٰذا اب اسی پر عمل ہو گا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہ کی سنت رہی ہے۔ (مترجم) [2] فضائل الصحابۃ (۷۵۶) اسنادہ حسن [3] موسوعۃ فقہ عثمان بن عفان ص (۱۹۰) [4] ایضًا، ص (۱۹۲) [5] البخاری؍ کتاب الحج (۱۵۶۳) [6] شہید الدار عثمان بن عفان ص (۸۶)