کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 426
لگاتے اور چالیس تعزیری سزا کے طور پر لگاتے تھے۔[1]
٭ … اخیافی (ماں شریک) بھائی ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ پر حد قائم کرنا:
حصین بن منذر سے روایت ہے: میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھا، ولید بن عقبہ کو حاضر کیا گیا، دو آدمیوں میں سے حمران نے گواہی دی کہ اس نے شراب پی ہے اور دوسرے نے گواہی دی کہ اس نے اسے شراب کی قے کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: شراب پییبغیر اس کی قے نہیں کر سکتا، اس نے ضرور شراب پی ہے۔ فرمایا: علی اٹھو اور اسے کوڑے لگاؤ۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: اے حسن! اس کو کوڑے لگا۔ اس پر حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’مشکلات کو وہی اٹھائے جو سہولیات سے مستفید ہوا ہے۔‘‘ گویا کہ وہ ناراض تھے۔ پھر علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے عبداللہ بن جعفر تم اس کو کوڑے لگاؤ۔ عبداللہ بن جعفر نے اس کو کوڑے لگائے اور علی رضی اللہ عنہ شمار کرتے رہے جب چالیس کوڑے لگا چکے تو علی رضی اللہ عنہ نے کہا رک جاؤ پھر فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چالیس کوڑے لگائے، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی چالیس ہی لگائے اور عمر رضی اللہ عنہ نے اسّی (۸۰) لگائے، سب ہی سنت ہے لیکن مجھے یہ یعنی چالیس ہی محبوب ہیں ۔[2] (مزید تفصیل ملاحظہ ہو، سیرت عثمان: ۲۰۵)
۲۔ عبادات و معاملات میں اجتہادات
۱۔ جمعہ کے دن دوسری اذان کا اضافہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
((علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین من بعدی۔))[3]
’’تم میری سنت اور میرے بعد خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو۔‘‘
یہ اضافہ خلفائے راشدین کی سنت میں سے ہے اور بلاشبہ عثمان رضی اللہ عنہ خلفائے راشدین میں سے ہیں ۔ آپ نے اذان کے اضافے میں مصلحت سمجھی تاکہ لوگوں کو نماز جمعہ کے وقت کے قریب ہونے سے آگاہ کر دیا جائے کیوں کہ مدینہ کی آبادی پھیل چکی تھی مسجد کی اذان کی آواز کا پہنچنا ممکن نہ رہا تھا اس لیے آپ نے اس سلسلہ میں اجتہاد کیا اور تمام صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ کی موافقت کی اور اس پر عمل جاری رہا کسی نے مخالفت نہیں کی یہاں تک کہ خلافت علی و معاویہ رضی اللہ عنہما اور خلافت بنو امیہ اور بنو عباس میں اس پر عمل ہوتا رہا اور آج تک اس پر عمل جاری ہے،
[1] موسوعۃ فقہ عثمان بن عفان ص (۹۳)
[2] شرح النووی علی صحیح مسلم، کتاب الحدود (۱۱؍۲۱۶)
[3] ابوداود؍ السنۃ (۴۶۰۷)۔ الترمذی؍ العلم (۲۶۷۶)