کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 425
ام المومنین نے عبدالرحمن بن زید کو اسے قتل کرنے کا حکم دیا انہوں نے اسے قتل کر دیا۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے اس پر نکیر کی تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: آپ ام المومنین پر اس خاتون کے قتل پر کیوں نکیر کرتے ہیں جس نے ان پر جادو کیا اور اس نے اس کا اعتراف بھی کیا؟ اس پر عثمان رضی اللہ عنہ نے خاموشی اختیار کی۔ عثمان رضی اللہ عنہ کو اس کے قتل پر اعتراض نہ تھا بلکہ چوں کہ حدود کا قائم کرنا امام وقت کا حق ہے، اس کا کام ہے کہ اقامت حدود کا حکم جاری کرے چوں کہ خلیفہ کے حق کو ضائع کیا گیا تھا اس لیے عثمان رضی اللہ عنہ نے نکیر فرمائی تھی۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا مذکورہ قول اسی پر دلالت کرتا ہے یعنی اس سلسلہ میں فیصلہ واضح ہے اور اس کے مستحق قتل ہونے میں کوئی شبہ نہیں ۔[1]
٭ … جانور پر زیادتی:
اگر جانور پر کسی نے زیادتی کی تو وہ اس کی قیمت کا ضامن ہو گا چنانچہ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ایک شخص نے نادر شکاری کتے کو قتل کر دیا، اس کی قیمت آٹھ سو درہم مقرر کی گئی۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے اس شخص پر اس کی ادائیگی لازم قرار دی اور اسی طرح ایک شخص نے ایک دوسرے شکاری کتے کو قتل کر دیا تو اس پر بیس اونٹ کا جرمانہ عائد کیا۔[2]
٭ … حملہ آور پر زیادتی:
اگر کوئی شخص کسی کے مال یا جان یا عزت پر حملہ کرے اور پھر وہ شخص جس پر حملہ کیا گیا ہے اس شخص کو قتل کر دے تو اس کا خون رائیگاں ہو گا۔ قصاص وغیرہ لاگونہ ہو گا۔ علامہ ابن حزم نے محلّی میں روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کے ساتھ غیر مرد کو دیکھا تو اس کو قتل کر دیا یہ قضیہ عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کیا گیا آپ نے اس کے خون کو رائیگاں قرار دیا۔[3]
٭ …شراب کی حد:
یہ بات معروف و معلوم ہے کہ جب آزاد شراب نوشی کا مرتکب ہوتا تو اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چالیس کوڑے لگاتے اور لوگ جوتے چپل اور کپڑے کے کنارے سے اس کی تذلیل کے لیے مارتے، یہی حالت عہد صدیقی میں بھی رہی اور یہی طریقہ عہد فاروقی کے ابتدائی دور میں رہا پھر عمر رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ لوگ اس سزا کو معمولی سمجھنے لگے ہیں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مشورے سے اس کی سزا اسّی (۸۰) کوڑے مقرر فرمائی لیکن عثمان رضی اللہ عنہ سے چالیس اور اسّی کوڑوں کی دونوں سزا ثابت ہے۔ اور یہ یوں ہی نفس پرستی کی بنیاد پر نہ تھا بلکہ آپ نے پینے والوں کی نوعیت میں تفریق کی بنیاد پر یہ طریقہ اختیار کیا تھا اگر کوئی پہلی بار اس جرم کا ارتکاب کر بیٹھتا تو اس کو چالیس کوڑے لگاتے اور جو اس کا عادی ہوتا اس کو اسّی (۸۰) کوڑے لگاتے۔ گویا آپ چالیس کوڑے حد کے طور پر
[1] موسوعۃ فقہ عثمان بن عفان ص (۱۶۹،۱۷۰)
[2] موسوعۃ فقہ عثمان بن عفان ص (۱۰۲)
[3] موسوعۃ فقہ عثمان بن عفان ص (۱۰۳)