کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 421
متعلق دین میں سبقت کو اساس قرار دیا اور کوفہ پر مقرر اپنے گورنر کو لکھا: ’’اما بعد! اس ملک کے فاتحین میں سابقین کو فوقیت دو اور ان کے بعد جنھوں نے یہاں نزول کیا ہے انہیں ان کے تابع رکھو الا یہ کہ وہ حق سے سست پڑ گئے ہوں اور حق چھوڑ بیٹھے ہوں اور بعد والے اس کو سنبھال لیے ہوں ۔ ہر ایک کے مقام و مرتبے کی حفاظت کرو اور سب کے حقوق ادا کرو، لوگوں کی معرفت سے ہی عدل قائم ہو گا۔‘‘[1] آپ کے دور خلافت میں جب اسلامی فتوحات میں وسعت ہوئی اور حکومت کے ذرائع آمدن میں اضافہ ہوا تو اس کے پیش نظر عثمان رضی اللہ عنہ نے مال گودام اور خزانے قائم کیے۔[2] مذکورہ اضافے کے نتیجے میں عطیات اور تنخواہوں میں اضافے ہوئے، چنانچہ فوجیوں کی تنخواہ میں ہر فرد کے لیے سو درہم کی مقدار میں اضافہ ہوا۔ آپ پہلے خلیفہ ہیں جس نے عطیات و تنخواہوں میں اضافے کیے اور بعد کے آنے والے خلفاء نے اضافے میں آپ کی اقتدا کی۔[3] حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’میں نے منادی کو اعلان کرتے ہوئے سنا لوگو! اپنے کپڑے لینے کے لیے نکلو، گھی اور شہد لینے کے لیے نکلو۔‘‘ نیز فرماتے ہیں : ’’فراوانی سے روزی مل رہی تھی، خیر کثیر تھا، آپ کے تعلقات استوار تھے، روئے زمین پر کوئی مسلمان کسی مسلمان سے خوف نہیں کھاتا تھا بلکہ ایک دوسرے سے محبت کرتے، ایک دوسرے کی مدد کرتے اور مانوس رہتے۔‘‘[4] عثمان رضی اللہ عنہ اسلامی سرحدوں کی حفاظت کا بے حد اہتمام فرماتے، وہاں افواج کو مقرر فرماتے اور فوجی قائدین کو سرحدوں پر پہرہ دینے والے فوجیوں کے لیے تنخواہ اور عطیات جاری کرنے اور اس میں مزید اضافہ کرنے کا حکم فرماتے۔[5] ۸۔ عثمان رضی اللہ عنہ کے اعزہ و اقرباء اور بیت المال سے عطیات: خوارج اور جہال کی طرف سے عثمان رضی اللہ عنہ پر یہ اتہام لگایا گیا کہ آپ بیت المال کا مال اپنے اقرباء و اعزہ میں لٹاتے رہے۔ اس اتہام کو روافض اور سبائی تحریک کے حاملین کے باطل پروپیگنڈوں سے تقویت ملی اور تاریخی کتابوں میں اسے جگہ مل گئی اور بعض مفکرین و مورخین نے اس باطل پروپیگنڈہ کو حقیقت تصور کر لیا حالاں کہ یہ
[1] تاریخ الطبری: (۵؍۲۸۰) [2] الادارۃ العسکریۃ فی الدولۃ الاسلامیۃ (۲؍۶۸۳۶) النجوم الزاہرۃ (۱؍۸۷) [3] تاریخ الطبری: (۵؍۲۴۵) [4] مجمع الزوائد (۹؍۹۳،۹۴) فضل الخطاب فی مواقف الاصحاب ص (۵۲) [5] فتوح مصر ص (۱۹۲) فتوح البلدان؍ البلاذری (۱؍۱۵۲،۱۵۷)