کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 420
خلافت فاروقی میں اس طرح کی چراگاہوں میں کافی اضافہ ہوا کیوں کہ جہاد کے لیے حکومت کے گھوڑوں اور اونٹوں میں اضافہ ہوا چنانچہ آپ نے ’’ربذہ‘‘ کو زکوٰۃ کے جانوروں کے لیے خاص کر دیا اور وہاں اپنے غلام (ھنی) کو مقرر کیا اور انہیں حکم دیا کہ جن کے پاس معمولی اونٹ ہیں انہیں یہاں چرانے دینا البتہ مال داروں کو یہ موقع نہ دینا۔ اسی طرح آپ نے دیار بنی ثعلبہ میں ایک زمین کو چراگاہ کے لیے خاص کر دیا باوجودیکہ ان لوگوں نے اس پر بڑا احتجاج کیا، آپ نے ان کے جواب میں فرمایا:
’’ملک اللہ کا ہے اور اللہ ہی کے مال کے لیے اس کی حفاظت کی جا رہی ہے۔‘‘[1]
عہد عثمانی میں اسلامی سلطنت کی وسعت اور فتوحات میں اضافے کے سبب عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے پیش رو ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے منہج کو اختیار کیا۔ آپ نے چراگاہوں کی تخصیص مسلمانوں کے صدقات کی حفاظت و حمایت کے لیے کی، چنانچہ جب چرنے والے جانوروں میں اضافہ ہوا تو چراگاہوں میں بھی اضافہ کیا اور جو چیز ضرورت کے تحت جائز ہو تو ضرورت میں اضافے کی صورت میں اس میں اضافہ بھی جائز ہو گا۔[2]
۶۔ عہد عثمانی میں عام اخراجات کے انواع و اقسام:
٭ خلیفہ کے اخراجات
٭ بیت المال سے گورنروں کی تنخواہ
٭ بیت المال سے فوج کی تنخواہ
٭ بیت المال سے حج کے عام اخراجات
٭ بیت المال سے مسجد نبوی کی تعمیر نو
٭ بیت المال سے مسجد حرام کی توسیع
٭ پہلا بحری بیڑا بیت المال سے تیار کیا گیا
٭ بندرگاہ جدہ کی تعمیر پر خرچ
٭ بیت المال سے کنوؤں کی تعمیر
٭ بیت المال سے مؤذنوں پر خرچ
٭ اسلام کے بلند مقاصد و اہداف پر خرچ (تفصیل کے لیے دیکھیے: سیّدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ، ص: ۱۸۶)
۷۔ عہد عثمانی میں عطیات کے نظام کا باقی و برقرار رہنا:
عہد عثمانی میں عطیات کا نظام جاری رہا، جیسا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں جاری تھا، عطیات سے
[1] الطبقات (۳؍۳۲۶) یہ اثر صحیح ہے۔
[2] نظام الخلافۃ فی الفکر الاسلامی ؍د۔ مصطفی حلمی ص (۷۸)