کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 418
۳۔مال غنیمت کا خمس:
جہاد کا آغاز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے شروع ہوا اور ابوبکر و عمر اور اسی طرح عثمان رضی اللہ عنہم کے دور میں جاری رہا جس کے نتیجے میں اسلام کی نشر و اشاعت ہوئی اور اسلامی سلطنت کو وسعت ملی۔ عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں فتوحات بہت زیادہ ہوئیں جس کی وجہ سے بہت زیادہ مال غنیمت بیت المال کو حاصل ہوا اور اسی میں سے خمس بھی تھا۔
درج ذیل بعض مسائل سے عہد عثمانی میں مال غنیمت کے خمس سے متعلق عام مالی سیاست کے نفاذ کا اظہار ہوتا ہے:
٭ …عہد عثمانی میں مال غنیمت میں بچوں کا حصہ نہیں مقرر کیا گیا:
تمیم بن مہری کا بیان ہے کہ میں دوسری مرتبہ فتح اسکندریہ میں شریک تھا لیکن مجھے مال غنیمت میں حصہ نہیں دیا گیا جس کی وجہ سے قریب تھا کہ میری قوم اور قریش کے درمیان اختلاف رونما ہو جائے، لیکن بعض لوگوں نے کہا اس سلسلہ میں بصرہ غفاری اور عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہما سے دریافت کر لیا جائے ،دونوں صحابی رسول ہیں ، جب ان دونوں سے اس سلسلہ میں دریافت کیا گیا تو ان دونوں نے کہا: اگر زیر ناف بال آگئے ہیں تو پھر حصہ دیا جائے، چنانچہ بعض لوگوں نے میرا معائنہ کیا تو زیر ناف بال آچکے تھے لہٰذا مجھے مال غنیمت میں حصہ دیا گیا۔[1]
اس کا معنی یہ ہوا کہ بچے کا مال غنیمت میں حصہ نہیں ہے اور اسی طرح عورت کا بھی حصہ نہیں ہے، لیکن چوں کہ انہوں نے جنگ میں مسلمانوں کا تعاون کیا ہے اس لیے کچھ مال دیا جائے گا اور یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نافذ العمل تھا۔[2]
٭ … مقتول کا ساز و سامان قاتل کے لیے:
جنگ میں مقتول کے پاس جو اسلحہ اور سواری ہو اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ہے کہ وہ قاتل کا ہے چنانچہ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معرکہ حنین کے موقع پر فرمایا:
(( من قتل قتیلا لہ بینۃ فلہ سلبہ۔))[3]
’’جس نے کفار کی فوج میں سے کسی کو قتل کیا اس کے لیے مقتول کا ساز و سامان ہے بشرطیکہ اس کے پاس اس کا ثبوت ہو۔‘‘
اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ قاتل کو مقتول کے سازو سامان کا حق اسی وقت حاصل ہو گا جب
[1] فتوح مصر و اخبارہا ، ص: (۱۲۱)
[2] السیاسۃ المالیۃ لعثمان ، ص (۹۳)
[3] البخاری: کتاب المغازی (۴۳۲۲)