کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 416
زکوٰۃ نکال سکو اور جس کے پاس نصاب زکوٰۃ تک مال نہ ہو اس سے زکوٰۃ نہیں لی جائے گی الایہ کہ وہ نفلی طور سے دے۔ اور جس سے زکوٰۃ لے لی گئی اس کو دوبارہ زکوٰۃ نہیں ادا کرنا ہے یہاں تک کہ آئندہ سال یہی مہینہ دوبارہ آجائے۔‘‘ ابراہیم بن سعد کا بیان ہے کہ اس سے مقصود ماہ رمضان ہے۔[1] اور ابوعبید کا بیان ہے کہ بعض آثار میں یہ بات وارد ہے کہ اس ماہ سے عثمان رضی اللہ عنہ کا مقصود ماہ محرم ہے۔[2] ٭ …قرض دیے ہوئے مال کی زکوٰۃ سے متعلق عثمان رضی اللہ عنہ کا فرمان: سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے تھے: ’’زکوٰۃ اس قرض دیے ہوئے مال میں واجب ہے جسے جب چاہو وصول کر لو، قرض دار مال دار ہو لیکن تم حیا اور شرم کی وجہ سے نہ مانگ سکو تو اس میں زکوٰۃ ہے۔‘‘[3] عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: ’’قرض کی زکوٰۃ ادا کرو اگر وہ مال دار کے ذمہ ہو۔‘‘[4] عثمان رضی اللہ عنہ کے ان دونوں اقوال سے واضح ہوتا ہے کہ زکوٰۃ قرض دیے ہوئے مال میں واجب ہے جب کہ قرض لینے والا مال دار ہو اور قرض خواہ اس کو وصول کر سکتا ہو، لیکن حیا مانع ہو یا کسی منفعت کے پیش نظر نہ کہہ سکتا ہو۔[5] ٭ … زکوٰۃ کی مد سے قرض لے کر مصالح عامہ پر خرچ کرنا: عثمان رضی اللہ عنہ نے اموال زکوٰۃ لے کر جنگ میں اور دیگر مصالح عامہ پر خرچ کیا چنانچہ آپ نے زکوٰۃ کی مد سے لے کر جہاد پر خرچ کیا اس شرط کے ساتھ کہ جب بیت المال میں وسعت ہو گی تو واپس کر دیں گے اور خلیفہ کو یہ حق حاصل ہے کہ ایک مد سے قرض لے کر دوسری مد میں خرچ کرے، اس میں نہ تو دین کی مخالفت لازم آتی ہے اور نہ سنت میں تبدیل و تغیر، جب کہ اس بات کا عزم مصمم ہو کہ بعد میں لیے ہوئے مال کو واپس کر دیں گے۔[6]علماء کی ایک رائے تو یہ ہے کہ مصارف زکوٰۃ میں سے ایک مصرف فی سبیل اللہ ہے، غازی فی سبیل اللہ کو زکوٰۃ میں سے دیا جائے گا کیوں کہ جہاد کی وجہ سے وہ کام کاج کر کے اپنی روزی نہیں کما سکتا اور یہ بے کاری اور عدم عمل پر ہمت افزائی نہیں ہے کیوں کہ اس شخص نے ذاتی مصلحت پر اسلامی مصلحت کو ترجیح دی ہے اور ذاتی عمل کو اعلائے کلمۃ اللہ اور دین کی نشر و اشاعت کی خاطر چھوڑا ہے اور بعض علماء تو اس بات کے قائل ہیں کہ زکوٰۃ
[1] الاموال؍ ابو عبید ص (۵۳۴) [2] ایضًا، ص (۵۳۵) [3] الاموال ؍ ابو عبید ص (۵۳۷) [4] المنتخب من السنۃ (۶؍۳۰۱) [5] السیاسۃ المالیۃ لعثمان بن عفان، ص (۷۹) [6] ایضًا، ص (۸۰)