کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 413
’’اپنے بھائی کے لیے مغفرت کی دعا کرو، اور اللہ سے اس کے لیے ثابت قدمی مانگو، یقینا ابھی اس سے سوال ہونے والا ہے۔‘‘
زہد:
امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ نے مال داری و ثروت میں شہرت حاصل کی لیکن اس کے باوجودآپ زہد کے پیکر تھے، متعدد روایات اس کا بین ثبوت ہیں ، چنانچہ حمید بن نعیم سے روایت ہے کہ عمرو عثمان رضی اللہ عنہما کو کھانے کی دعوت دی گئی، جب دونوں چلے تو عثمان رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا ہم ایسے کھانے کی محفل میں شرکت کر رہے ہیں کہ میرا جی چاہتا ہے کہ ہم یہاں نہ آتے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیوں ؟ فرمایا: مجھے خوف ہے کہ کہیں فخر و مباہات کے لیے یہ کھانے کی محفل نہ سجائی گئی ہو۔[1]
اسلامی سخاوت کے میدان میں عثمان رضی اللہ عنہ کی فقاہت یہ تھی کہ سخاوت اسلام میں فخر و مباہات کی خاطر انواع و اقسام کے زیادہ کھانے پیش کرنے کا نام نہیں ، بلکہ مال کو بغیر اسراف کے اور کبر و غرور سے دور رہ کر منعم حقیقی کے شکر اور لوگوں کے ساتھ تواضع اور فروتنی اختیار کرتے ہوئے خرچ کرنے کا نام ہے۔ عثمان رضی اللہ عنہ کا یہ نظریہ دنیاوی جاہ وحشمت سے بے نیازی پر مبنی ہے، اور اس بات کی دلیل ہے کہ آپ دنیا بیزار لوگوں میں سے تھے۔[2]
وہ روایت بھی عثمان رضی اللہ عنہ کے زہد و تواضع کی دلیل ہے جسے امام احمد رحمہ اللہ نے میمون بن مہران کی حدیث سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں : مجھے ہمدانی نے بیان کیا کہ انہوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ آپ خچر پر سوار ہیں ، اور اپنے پیچھے اپنے غلام نائل کو سوار کیے ہوئے ہیں جب کہ آپ خلیفۃ المسلمین کے اعلیٰ منصب پر فائز تھے۔[3]
شکر:
عثمان رضی اللہ عنہ زبان و قلب اور اعضاء سے اللہ تعالیٰ کا شکر کثرت سے ادا کرنے والے تھے، ایک دن آپ کو خبر دی گئی کہ کچھ لوگ غلط کام میں لگے ہیں ، آپ ان کے تعاقب کے لیے نکلے، لیکن وہاں پہنچنے سے قبل وہ لوگ بھاگ لیے، اس پر عثمان رضی اللہ عنہ نے اس بات پر اللہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے ہاتھوں کوئی مسلم ذلیل نہیں ہوا، پھر ایک غلام آزاد کیا۔[4]
لوگوں کی خبر گیری:
عثمان رضی اللہ عنہ لوگوں کی محبت سے سر شار اور انتہائی شفیق و رحیم تھے، لوگوں کے حالات برابر دریافت کرتے رہتے۔ ان کی مشکلات و پریشانیوں کو معلوم کرتے، غائب کی خبر گیری کر کے اطمینان حاصل کرتے اور حاضرین
[1] الزہد؍ الإمام احمد ص (۱۲۶)
[2] التاریخ الاسلامی ص (۱۷،۱۸؍۴۸)
[3] الزہد ص (۱۲۷)
[4] علوالہمۃ (۵؍۴۸۱)