کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 412
آپ کا معمول تھا کہ آپ جمعہ کی رات میں قرآن کی تلاوت شروع کرتے اور جمعرات کی رات میں ختم کر دیتے تھے۔[1]اور آپ برابر نفلی روزے رکھتے اور رات کے ابتدائی حصہ میں سوتے اور باقی رات قیام میں گزارتے تھے۔[2] خوف الٰہی، محاسبہ نفس اور رونا: آپ نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا: ’’لوگو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو، یقینا اللہ کا تقویٰ غنیمت ہے، اور عقل مند انسان وہ ہے جس نے اپنے نفس کو کنٹرول کیا، اور موت کے بعد آنے والی زندگی کے لیے عمل کیا، اور اللہ کے نور سے قبر کے لیے نور حاصل کیا، اور اس بات سے خوفزدہ ہوا کہ کہیں اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن اندھا نہ اٹھائے حالانکہ دنیا کے اندر وہ بینا رہا۔‘‘[3] آپ سے یہ قول بھی مروی ہے: ’’اگر میں جنت و جہنم کے درمیان کھڑا ہوں اور مجھے اس کا علم نہ ہو کہ دونوں میں سے کس کی طرف مجھے حکم دیا جائے گا تو اپنے انجام کو جاننے سے قبل میری یہ تمنا ہو گی کہ میں راکھ کا ڈھیر ہو جاؤں ۔‘‘ آپ جب آخرت کو یاد کرتے اور انشقاق قبر اور حساب و کتاب کے لیے وہاں سے نکلنے کا تصور کرتے تو آپ پر کپکپی طاری ہو جاتی تھی، اور آنسو جاری ہو جاتے تھے۔[4] چنانچہ آپ کے غلام ہانی سے روایت ہے: عثمان رضی اللہ عنہ قبر کے پاس کھڑے ہوتے تو اس قدر روتے کہ داڑھی تر ہو جاتی، جب آپ سے کہا جاتاکہ جنت و جہنم سے نہیں لیکن آپ اس قبر کو دیکھ کر روتے ہیں ؟ تو فرماتے: قبر آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے اگر انسان اس سے نجات پا گیا تو اس کے بعد کی منزلیں اس سے آسان ہیں ، اور اگر اس سے نجات نہ ملی تو بعد کی منزلیں اس سے سخت ہیں ۔ اور فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((واللّٰہ ما رأیت منظرا إلا و القبر افظع منہ۔)) ’’اللہ کی قسم! قبر سے بڑھ کر بدترین منظر میں نے نہیں دیکھا۔‘‘ اور آپ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب میّت کے دفن سے فارغ ہوتے تو وہاں ٹھہرتے اور پھر فرماتے: ((استغفروا لأخیکم وسلوا لہ بالتثبیت فإنہ الآن یسأل۔))[5]
[1] علوالہمۃ (۳؍۹۳) [2] صفۃ الصفوۃ ؍ امام ابن الجوزی (۱؍۳۰۲) [3] صحیح التوثیق فی سیرۃ و حیاۃ ذی النورین؍ مجدی فتحی السید ، ص (۱۰۷) [4] نظام الحکم فی عہد الخلفاء الراشدین ؍ حمد محمد الصمد ، ص (۲۰۵) [5] فضائل الصحابۃ ص (۷۷۳) اسنادہ حسن