کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 410
نفس کی قربانی:
جب آپ کو آپ کے گھر میں محصور کر دیا گیا اور شرپسندوں نے آپ سے مطالبہ کیا کہ یا تو خلافت سے معزول ہو جائیں یا اپنے گورنروں اور عاملین کو معزول کر دیں ، اور ان میں سے بعض کو ان کے حوالہ کر دیں ورنہ ہم ان کو قتل کریں گے۔ اس نازک وقت میں آپ اپنے موقف پر ڈٹے رہے، نفس کی قربانی قبول کر لی لیکن خلافت کو شرپسندوں کے ہاتھ میں کھلونا بننے سے محفوظ رکھا کہ وہ جس کو چاہیں معزول کریں اور جس کو چاہیں رکھیں ، اور امت نے جس کو اس عظیم عہدے کے لیے منتخب کیا ہے اس سے یہ عہدہ چھین لیں ، اور پھر یہ ہمیشہ کے لیے رسم و اصول بن جائے۔[1]اس لیے آپ اپنے موقف پر ڈٹے رہے حالاں کہ محاصرین کی تلواروں میں آپ اپنی موت کا مشاہدہ فرما رہے تھے، جو شخص یہ موقف اختیار کرے وہ بہادر اور صاحب حق ہی ہو سکتا ہے۔ بزدل یا دنیا دار انسان کبھی یہ موقف اختیار نہیں کر سکتا ہے کیوں کہ زندگی بزدلوں کے نزدیک پوری دنیا سے افضل و بہتر ہے۔[2]
عثمان رضی اللہ عنہ کی یہ عظیم شجاعت، بے مثال عزیمت، اور عجیب اصرار، اللہ اور یوم آخرت پر قوی ایمان کا نتیجہ تھا جو آپ کے دل میں جاگزیں ہو چکا تھا، اور جس کی وجہ سے آپ اس دنیاوی زندگی کی ہر چیز حتیٰ کہ اپنی زندگی کو بھی حقیر جانتے تھے۔[3]
صبر:
سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ صفت صبر سے متصف تھے، آپ کے ان مواقف میں سے جو اس صفت پر دلالت کرتے ہیں فتنہ کے دور میں آپ کا ثابت قدم رہنا ہے، اس وقت جب کہ آپ اور دیگر مسلمانوں پر مصائب و آلام کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے، اس کے مقابلے میں آپ نے جو موقف اختیار کیا وہ فدائیت و قربانی کی ایسی اعلیٰ مثال ہے جسے ایک فرد جماعتی وجود، امت کی کرامت اور مسلمانوں کے خون کی حفاظت کی راہ میں پیش کر سکتا ہے، اگر آپ کو اپنی جان عزیز ہوتی اور امت کا وجود پیش نظر نہ ہوتا تو آپ کے لیے یہ ممکن تھا کہ آپ اپنی جان کو بچا لیتے، اور اگر آپ خود غرض ہوتے اور صرف اپنی ذات کی فکر ہوتی اور ایثار و قربانی کے جذبات سے سرشار نہ ہوتے تو بلوائیوں کے مقابلے میں صحابہ کرام اور ابنائے مہاجرین و انصار کو اپنی حفاظت اور دفاع میں لگا دیتے، لیکن آپ نے امت کے اتحاد کو برقرار رکھنا چاہا اس لیے انتہائی صبر و ثبات اور احتساب کے ساتھ اپنی جان کی قربانی پیش کر دی، اور اعلان کیا کہ میں صبر جمیل کے ساتھ اس عظیم فتنے کا مقابلہ کروں گا۔[4] اس طرح اس آیت کریمہ پر آپ کا
[1] الامین ذوالنورین ص (۱۹۷)
[2] ایضًا
[3] جولۃ تاریخیۃ فی عصر الخلفاء الراشدین؍ محمد الوکیل ص (۳۰۴)
[4] سیرۃ الشہداء ؍ السختیانی ص (۵۷،۵۸)