کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 409
جود و سخا:
عثمان رضی اللہ عنہ امت اسلامیہ کے سخی ترین انسان تھے، آپ کی جود و سخا اور فیاضی کے مختلف مواقف اور واقعات اسلامی تاریخ کی پیشانی پر روشن نشان ہیں ۔ اس سے قبل غزوہ تبوک کے موقع پر آپ کی فیاضی، بئر رومہ کو خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کرنا، عہد نبوی میں مسجد نبوی کی توسیع، اور عہد صدیقی میں غلے سے لدے ہوئے قافلے کو صدقہ کر دینے کے واقعات گزر چکے ہیں ۔ آپ ہر جمعہ کو جب سے اسلام قبول کیا تھا اللہ کی راہ میں ایک غلام آزاد کرتے، آپ کے آزاد کردہ غلاموں کی تعداد تقریباً دو ہزار چار سو تک پہنچتی ہے۔[1]
مروی ہے کہ طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کے ذمہ جو خود جود و سخا کے مالک تھے آپ کے پچاس ہزار تھے۔ ایک دن طلحہ رضی اللہ عنہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا آپ کا مال حاضر ہے لے لیجیے۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: وہ تمہاری مروت کی خاطر تمہارے لیے ہے۔[2]
شجاعت اور بہادری:
عثمان رضی اللہ عنہ انتہائی شجاع اور بہادر تھے، اس کی دلیل یہ ہے:
۱:…آپ کا جہاد کے لیے نکلنا، اور تمام غزوات و معرکوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شرکت کرنا۔ رہا مسئلہ غزوہ بدر میں عدم شرکت کا تو اس کے جواب میں ہم یہ عرض کر چکے ہیں کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو غزوئہ بدر میں شرکت کرنے والوں میں سے شمار کیا، اور مال غنیمت میں آپ کے لیے حصہ مقرر فرمایا، اور ان شاء اللہ اجر و ثواب کے بھی مستحق بنے۔ پھر بھلا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے آگے کس کی بات ہو سکتی ہے۔
۲:…صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفیر کی حیثیت سے قریش کے پاس جانا۔حدیبیہ کے موقع پر جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو قریش کے پاس بحیثیت سفیر بھیجنا چاہا آپ نے برضا و رغبت آپ کے فرمان کو عملی جامہ پہنایا، حالاں کہ آپ کو بخوبی معلوم تھا کہ یہ مہم کس قدر خطر ناک ہے لیکن آپ کی شجاعت و بہادری تھی کہ آپ نے انکار نہ کیا اور سراپا اطاعت بن گئے، یقینا جو شخص ان سنگین حالات میں سفارت کو قبول کرے وہ انتہائی عظیم بہادر و شجاع اور نادر الوجود ہیرو ہی ہو سکتا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ پر صحیح ہے کہ چوں کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تھا جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا تھا، اس لیے عثمان رضی اللہ عنہ میں بھی انکار کی تاب نہ تھی لیکن ساتھ ہی ساتھ اس واقعے میں آپ کی شجاعت و بہادری بھی عیاں ہے کیوں کہ عام آدمی اور بزدل شخص اس اہم ذمہ داری کو ان حالات میں قبول نہیں کر سکتا۔[3]
[1] الصواعق المحرقۃ؍ ابن حجر الہیثمی (۱؍۳۲۷)
[2] البدایۃ والنہایۃ (۷؍۲۲۷)
[3] الامین ذوالنورین ص (۱۹۴، ۱۹۵،۱۹۶)