کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 405
اللہ اور یوم آخرت پر عظیم ایمان، علم شرعی، اللہ پر اعتماد و یقین، قدوہ و اسوہ، صدق و صفا، کمال و شجاعت، مروت و زہد، حب نصیحت، تواضع، قبول نصیحت، حلم و بردباری، صبر، علوہمت، حزم و دور اندیشی، قوی ارادہ، عدل، مشکلات کو حل کرنے کی قدرت و صلاحیت، تعلیم اور قائدین کو تیار کرنے کی صلاحیت و قدرت وغیرہ وغیرہ۔
ربانی قیادت کی جو صفات اللہ تعالیٰ نے آپ کے اندر و دیعت کر رکھی تھیں آپ نے ان کے ذریعے سے حکومت کی حفاظت فرمائی، اور مفتوحہ علاقوں میں رونما ہونے والی بغاوتوں کا قلع قمع کیا، اور پوری ثابت قدمی کے ساتھ اللہ کے فضل و توفیق سے اسے متعین اہداف کی طرف لے کر چلے۔
حلم و بردباری:
حلم و بردباری حکمت کے ارکان میں سے بنیادی رکن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مختلف مقامات پر اپنے آپ کو اس صفت سے متصف قرار دیا ہے۔ بطور مثال ارشاد الٰہی ہے:
﴿ إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطَانُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُوا ۖ وَلَقَدْ عَفَا اللَّـهُ عَنْهُمْ ۗ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ ﴾ (آل عمران: ۱۵۵)
’’تم میں سے جن لوگوں نے اس دن پیٹھ دکھائی جس دن دونوں جماعتوں کی مڈبھیڑ ہوئی تھی، یہ لوگ اپنے بعض کرتوتوں کے باعث شیطان کے پھسلانے میں آگئے، لیکن یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کر دیا۔ اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور تحمل والا ہے۔‘‘
آپ حلم و بردباری اور عفو و درگزر میں مثال درجہ کو پہنچے ہوئے تھے۔ خلیفہ راشد عثمان رضی اللہ عنہ اقوال و افعال اور احوال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء و پیروی کا سخت اہتمام کرتے تھے۔ آپ کے مختلف مواقف حلم اور ضبط نفس پر دلالت کرتے ہیں ۔ واضح ترین موقف جو آپ کی بردباری پر واضح دلیل ہے وہ آپ کے محصور کیے جانے کا واقعہ ہے، جب کہ شرپسند آپ کو آپ کے گھر میں محصور کر کے آپ کے قتل کے درپے تھے، ان حالات میں آپ کے دفاع میں مہاجرین و انصار کی جو جماعت آپ کے پاس تھی آپ نے انہیں اپنے گھروں کو واپس چلے جانے کا حکم دے دیا، حالاں کہ وہ آپ کی حفاظت و دفاع کرنے پر قادر تھے۔ اللہ کی ملاقات کے شوق اور مسلمانوں کے خون کی حفاظت میں آپ کی بردباری نمایاں تھی۔[1]
رواداری و عالی ظرفی:
عطاء بن فروخ سے روایت ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک شخص سے زمین خریدی، اس نے قیمت وصول کرنے میں تاخیر کی، آپ اس سے ملے اور کہا: تمہیں اپنا مال لینے میں کیا چیز مانع ہوئی؟ اس نے کہا: آپ نے مجھے دھوکا دیا ہے، جس سے بھی ملتا ہوں وہ مجھے ملامت کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا: کیا یہ چیز مانع ہوئی ہے؟ اس نے کہا:
[1] الکفاء ۃ الإداریۃ فی السیاسۃ الشرعیۃ؍د۔عبداللّٰہ قادری ، ص (۶۵)