کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 403
عدل و مساوات: اسلامی حکومت کے اہداف میں سے اسلامی نظام کے ایسے اصول و ضوابط کو قائم کرنے کا اہتمام کرنا بھی ہے جو اسلامی معاشرہ کو قائم کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوں ۔ ان اہم اصول و ضوابط میں سے ایک چیز عدل و مساوات ہے، چنانچہ سیّدنا عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ نے مختلف صوبوں میں لوگوں کے نام یہ پیغام جاری کیا: بھلائی کا حکم دو برائی سے روکو، مومن اپنے آپ کو ذلیل نہ ہونے دے۔ ان شاء اللہ میں قوی کے خلاف ضعیف کے ساتھ ہوں اگر وہ مظلوم ہے۔ [1] آپ کی سیاست عدل کی اعلیٰ شکلوں پر قائم تھی، چنانچہ آپ نے والی کوفہ ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ پر جو آپ کے ماں شریک بھائی تھے اس وقت حد جاری کی جب ان کی شراب نوشی کی شہادت لوگوں نے دی، اور پھر اس عہدے سے ان کو سبکدوش کر دیا، اور ان کی جگہ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو والی مقرر فرما دیا، کیونکہ اہل کوفہ سعید بن العاص رضی اللہ عنہ کی تولیت سے متفق نہ ہوئے۔ احتساب (امر بالمعروف و نہی عن المنکر): امیر المومنین رضی اللہ عنہ نے احتساب کا خود اہتمام فرمایا اور اس پر دوسروں کو بھی مامور کیا۔ آپ نے خود اس فریضہ کو مختلف مواقع پر ادا کیا۔ زعفرانی رنگ کا کپڑا پہننے پر اعتراض: محمد بن جعفر کو جب زعفرانی رنگ کا لباس زیب تن کیے ہوئے پایا تو ان پر اعتراض کیا، چنانچہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے حج کے ارادہ سے مکہ کی طرف کوچ فرمایا: اور ادھر محمد بن جعفر رضی اللہ عنہ کی اہلیہ آگئیں ۔ انہوں نے ان کے ساتھ مدینہ میں شب باشی کی، اور پھر صبح حج کے لیے روانہ ہوئے، ان پر خوشبو کے اثرات تھے اور گاڑھے زعفرانی رنگ کی چادر زیب تن کیے ہوئے تھے، پھر اسی حالت میں مقام ملل پر جا کر قافلہ حج سے ملے، جب عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کو اس حالت میں دیکھا تو ان کو ڈانٹا اور فرمایا: تم زعفرانی رنگ کا لباس پہنتے ہو حالاں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔[2] فساد و برائی کا مرتکب اور ہتھیار اٹھانے والے کو مدینہ سے باہر نکال دینا: جس کو فساد کا مرتکب پاتے یا ہتھیار اٹھائے ہوئے دیکھتے اس پر نکیر کرتے، اور مدینہ سے نکال باہر کر دیتے۔ سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ کسی کو برائی کا مرتکب پاتے، یا لاٹھی یا اس سے بڑا کوئی
[1] تاریخ الطبری: ۴؍۴۱۴۔ [2] مسند احمد (۵۱۷) احمد شاکر نے فرمایا اس کی سند صحیح ہے۔ دیکھیے مسند احمد پر آپ کی تعلیق (۱؍۳۸۴)