کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 400
آگاہ کیا تاکہ ان کے درمیان باہمی کشمکش، بغض اور حسد برپا نہ ہو جس سے امت اختلاف و افتراق کا شکار ہو جائے۔ عثمان رضی اللہ عنہ اپنی ناقدانہ بصیرت سے اس امت کے اندر خواہش پرستی کی وجہ سے رونما ہونے والے فتنوں کو پردے کے پیچھے دیکھ رہے تھے۔[1]
آپ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’اما بعد (حمد و صلوٰۃ کے بعد)! مجھے خلافت کا مکلف کیا گیا ہے اور میں نے اسے قبول کر لیا ہے۔ خبردار میں بدعتی نہیں بلکہ متبع ہوں ۔ آگاہ رہو تمہارے لیے مجھ پر کتاب و سنت کے بعد تین حقوق ہیں : اول یہ کہ میں اپنے سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کی ان چیزوں میں اتباع کروں جن پر تم نے اجماع کیا ہے اور طریقہ متعین کیا۔ اور تم اور اہل خیر نے جو طریقہ متعین کیا ہے وہ تمام لوگوں کے سامنے متعین کروں ۔ اور دوسرے یہ کہ اپنے ہاتھ کو تم سے روکے رکھوں الا یہ کہ تم خود اپنے اوپر سزا کو لازم کر لو، یقینا دنیا سر سبز و شاداب ہے اور لوگوں کی طرف لپکی ہے، اور بہت سے لوگ اس کی طرف مائل ہو چکے ہیں ، لہٰذا تم دنیا کی طرف نہ مائل ہونا اور نہ اس پر اعتماد کرنا، دنیا قابل اعتماد نہیں ہے اور یاد رکھو! وہ کسی کو چھوڑنے والی نہیں ہے الا یہ کہ جو اس کو خود چھوڑ دے۔‘‘ [2]
بعض حضرات کا یہ کہنا کہ ’’عثمان رضی اللہ عنہ پہلا خطاب کرنے کے لیے جب کھڑے ہوئے تو کانپ اٹھے اور یہ نہ سمجھ سکے کہ کیا کہنا ہے یہاں تک کہ معذرت کرتے ہوئے فرمایا: لوگو! پہلی مرتبہ سواری پر سوار ہونا مشکل ہوتا ہے اگر زندگی رہی تو صحیح طریقے سے خطاب کروں گا۔‘‘ اس بات کو العقد الفرید[3]کے مصنف وغیرہ نے ذکر کیا ہے، لیکن اس کی سند صحیح نہیں ہے۔[4]
الف:…والیان، عمال، سپہ سالاروں اور عام لوگوں کے نام
عثمان رضی اللہ عنہ کے خطوط
سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ کے طرز حکومت کو اپناتے ہوئے ایک سال تک تمام عمال اور والیان کو اپنے منصب پر باقی رکھا کسی کو بھی معزول نہ کیا۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے والیان، عمال اور سپہ سالاروں کے نام جو خطوط تحریر کیے ہیں ان میں غور و فکر کرنے والے کو اس منہج کا پتہ چل جاتا ہے جس پر وہ چلنا اور امت کو چلانا چاہتے تھے۔ [5]
[1] تحقیق مواقف الصحابۃ فی الفتنۃ (۱؍۳۹۲)
[2] تاریخ الطبری: ۵؍۴۴۳۔
[3] العقد الفریدکے مصنف ابن عبدربہ اندلسی ہیں ۔ انہوں نے اس کتاب کے اندر اخبار و حکایات اور نوادر جمع کیے ہیں سند اور صحت کا اہتمام نہیں کیا ہے۔
[4] خلافۃ عثمان بن عفان ؍د۔ السلمی ص (۳۴۔۳۵) مذکورہ روایت و اقدی کی سند سے مروی ہے جو متروک راوی ہے۔
[5] تحقیق مواقف الصحابۃ فی الفتنۃ؍ د۔ محمد امحزون : ۱؍۳۹۳۔