کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 40
ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: (( ابشر فانت عتیق اللّٰہ من النار۔)) [1] ’’(ابوبکر) تم خوش ہو جاؤ جہنم سے تم اللہ کے عتیق (آزاد کردہ) ہو۔‘‘ اسی روز سے آپ کا نام عتیق پڑ گیا۔[2] صدیق (سچائی کا پیکر): یہ لقب آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمایا، چنانچہ انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ ابوبکر وعمر اور عثمان رضی اللہ عنہم احد پہاڑ پر چڑھے تو وہ ہلنے لگا، تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( اثبت احد فانما علیک نبی وصدیق وشہید ان۔)) [3] ’’اے احد! ٹھہر جا، اس وقت تیرے اوپر نبی، صدیق اور دو شہید ہیں ۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلہ میں کثرت تصدیق کی وجہ سے آپ کو صدیق کا لقب ملا۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسراء ومعراج کاواقعہ پیش آیا اور صبح کے وقت آپ نے اس کو لوگوں سے بیان کیا تو کچھ لوگ جو ایمان لا چکے تھے مرتد ہو گئے، لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور کہا: آپ کو اپنے ساتھی کی خبر ہے؟ ان کا تو یہ زعم ہے کہ وہ راتوں رات بیت المقدس گئے، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے دریافت کیا: کیا واقعی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات کہی ہے؟ لوگوں نے کہا: ہاں ، آپ نے فرمایا: اگر واقعی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات کہی ہے تو سچ ہے۔ لوگوں نے کہا: کیا آپ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ راتوں رات بیت المقدس گئے اور صبح ہونے سے پہلے واپس آگئے؟ فرمایا: ہاں ہم تو اس سے بڑی بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ صبح وشام آپ کاصدیق ہونے پر امت کا اجماع ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق میں آپ نے سبقت کی اور صدق و سچائی کو آپ نے لازم پکڑا اور کبھی اس سلسلے میں کوتاہی اور لغزش کا شکار نہیں ہوئے۔ آپ اس صفت سے ہمیشہ متصف رہے۔ آپ پر آسمان کی خبروں کا نزول ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے آپ کو صدیق سے ملقب کیا گیا۔[4] صاحب (ساتھی): قرآن کریم میں اللہ رب العالمین نے یہ لقب آپ کو عطا فرمایا۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿ إِلَّا تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّـهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي
[1] رواہ الترمذی فی المناقب: ۳۶۷۹، وصححہ الالبانی رحمہ اللّٰه فی السلسلۃ: ۱۵۷۴۔ [2] اصحاب الرسول ، محمود المصری ۱؍۵۹۔ [3] صحیح البخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی، باب فضل ابی بکر: ۵/۱۱۔ [4] اخرجہ الحاکم۳/ ۶۲،۶۳ وصححہ و أ قرہ الذہبی۔