کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 399
۷۔عثمان رضی اللہ عنہ پر علی رضی اللہ عنہ کو فوقیت دینے کا حکم: اہل سنت کا یہ عقیدہ ہے کہ جو شخص علی رضی اللہ عنہ کو ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہ پر فوقیت و فضیلت دیتا ہے وہ گمراہ اور بدعتی ہے، اور جو شخص علی رضی اللہ عنہ کو عثمان رضی اللہ عنہ پر فوقیت و فضیلت دیتا ہے وہ غلطی پر ہے اس کو گمراہ و بدعتی قرار نہیں دیتے۔[1] اگرچہ بعض اہل علم نے اس پر سخت نکیر کی ہے جو علی رضی اللہ عنہ کو عثمان رضی اللہ عنہ پر فوقیت دیتا ہے۔ فرماتے ہیں : جس نے علی رضی اللہ عنہ کو عثمان رضی اللہ عنہ پر فوقیت دی تو گویا اس نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس خیانت سے متہم کیا کہ انہوں نے امانت کو ادا نہ کرتے ہوئے علی رضی اللہ عنہ پر عثمان رضی اللہ عنہ کو ترجیح دے دی۔[2] علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اہل سنت عثمان رضی اللہ عنہ کی فوقیت و فضیلت اور انہیں مقدم رکھنے پر قائم ہیں ، لیکن جمہور اہل سنت کے نزدیک اس مسئلے کا تعلق اصول سے نہیں ہے کہ جس کے مخالف کو گمراہ قرار دیا جائے، بلکہ اصل مسئلہ خلافت کا ہے کہ جس کے مخالف کو گمراہ قرار دیا جائے گا۔ اہل سنت کا ایمان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ ابوبکر پھر عمر پھر عثمان اور پھر علی رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں ، اور جو شخص ان خلفائے اربعہ میں سے کسی کی خلافت پر طعن کرے وہ اپنے گدھے سے زیادہ گمراہ ہے۔[3] عثمان پر علی رضی اللہ عنہما کی فوقیت و فضیلت سے متعلق اہل علم کے دو اقوال ہیں : ۱۔ یہ جائز نہیں ہے، لہٰذا جس نے علی کو عثمان رضی اللہ عنہما پر فوقیت دی وہ سنت سے خارج ہو کر بدعت کے دائرے میں داخل ہو گیا، کیوں کہ اس نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجماع کی مخالفت کی، اسی لیے کہا گیا ہے کہ جس نے عثمان رضی اللہ عنہ پر علی رضی اللہ عنہ کو فوقیت دی اور مقدم جانا اس نے مہاجرین و انصار پر اتہام لگایا۔ یہ قول بہت سے ائمہ سے مروی ہے انہی میں سے ایوب سختیانی، احمد بن حنبل اور دار قطنی رحمہم اللہ ہیں ۔ ۲۔ اس کو بدعتی نہیں کہا جائے گا کیوں کہ عثمان و علی رضی اللہ عنہ کے حالات ایک دوسرے سے قریب ہیں ۔[4] (۴)…عثمان رضی اللہ عنہ کا منہج حکومت عثمان رضی اللہ عنہ سے جب لوگوں نے بیعت کر لی تو آپ نے قوم کو خطاب فرمایا اور اس خطاب کے اندر اپنے سیاسی منہج کو واضح کرتے ہوئے بتلایا کہ وہ اپنی حکومت میں کتاب و سنت اور شیخین ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی سیرت کا التزام کریں گے، اور یہ وضاحت فرمائی کہ وہ حلم و بردباری اور حکمت سے حکومت چلائیں گے الا یہ کہ کوئی اپنے اوپر شرعی حدود کو لازم کر لے۔ پھر آپ نے انہیں دنیا کی طرف مائل ہونے اور اس کے فتنے میں مبتلا ہونے سے
[1] مجموع الفتاوی: ۳؍۱۰۱۔۱۰۲۔ [2] حقبۃ من التاریخ؍ عثمان الخمیس ص: (۶۶) [3] مجموع الفتاوی: ۳؍۱۰۱۔۱۰۲۔ [4] مجموع الفتاوی: ۴؍۲۶۷۔ (قول اوّل ہی راجح ہے کیوں کہ نصوص اسی کی موید ہیں ۔) (مترجم)