کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 397
۴۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا یہ قول نقل کیا ہے: لوگ جس طرح عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت پر متفق ہوئے کسی کی بیعت پر متفق نہ ہوئے۔[1]
۵۔ ابو الحسن الاشعری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : عمر رضی اللہ عنہ کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ کی امامت ان اصحاب شوریٰ کی قرار داد سے ثابت ہوئی جن کو عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے لیے مقرر کیا تھا، انہوں نے آپ کو منتخب کیا، اور آپ کی امامت سے راضی ہوئے، اور آپ کے فضل و عدل پر اجماع کیا۔[2]
۶۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : مروی ہے کہ شوریٰ نے خلیفہ کے انتخاب کی مکمل ذمہ داری عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے سپرد کر دی تھی کہ وہ مسلمانوں میں جو افضل ہے اس کو خلیفہ منتخب کرنے کی پوری کوشش کریں ، تو انہوں نے ممبران شوریٰ اور دیگر حضرات جن تک پہنچ سکتے تھے ان سے اس سلسلہ میں گفتگو کر کے رائے معلوم کی تو سب ہی نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے حق میں رائے دی، یہاں تک کہ آپ نے علی رضی اللہ عنہ سے کہا: اگر میں آپ کو والی نہ بناؤں تو آپ اس منصب کے لیے کس کا نام پیش فرماتے ہیں ؟ جواب میں علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عثمان بن عفان رضی اللہ عنہما کا۔ اور عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا: اگر میں آپ کو والی نہ بناؤں تو آپ اس منصب کے لیے کس کا نام پیش فرماتے ہیں ؟ فرمایا: علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا۔
بظاہر یہ اس وقت کا معاملہ ہے جب مسئلہ خلافت تین دن کے اندر محصور نہیں ہوا تھا اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے افضل ترین کو منتخب کرنے کے لیے اپنے آپ کو اس حق سے الگ نہیں کیا تھا۔
پھر عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے ان دونوں یعنی عثمان و علی رضی اللہ عنہما کے سلسلے میں لوگوں سے صلاح و مشورہ شروع کیا، خاص و عام سب کی رائے معلوم کرنے لگے، الگ الگ، ایک ساتھ، دو دو، تنہا تنہا، خلوت و جلوت میں سب سے ملے، یہاں تک کہ پردہ نشین خواتین کے پاس پہنچے، ان کی رائے بھی معلوم کی، مکاتب میں بچوں سے ملے ان سے بھی پوچھا، حتیٰ کہ ان تین دنوں کے دوران میں جو مسافر اور دیہات کے رہنے والے مدینہ پہنچے ان سے بھی رائے معلوم کی، تو کسی کو عثمان رضی اللہ عنہ کے حق میں اختلاف کرتے ہوئے نہیں پایا۔
اس طرح عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے تین دن اور تین رات پوری محنت کی، نیند بھر نہ سوئے، اپنا سارا وقت نماز، دعا، استخارہ اور لوگوں سے صلاح و مشورہ میں گزار دیا، اور کسی کو عثمان رضی اللہ عنہ پر کسی کو مقدم کرتے ہوئے نہیں پایا، یہاں تک کہ وہ رات آئی جس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ کی وفات کا چوتھا دن طلوع ہونے والا تھا، آپ اس رات اپنے بھانجے مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچے اور ان سے کہا: علی و عثمان کو بلالاؤ،وہ بلا لائے۔ وہ دونوں عبدالرحمن بن
[1] منہاج السنۃ (۳؍۶۶)۔ السنۃ ؍الخلال، ص (۳۲۰)
[2] الإبانۃ عن اصول الدیانۃ، ص ۶۸۔