کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 392
۱۔ مسلمانوں کے معاملہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین پر نا انصافی کا اتہام: رافضی روایات نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو مسلمانوں کے معاملہ میں متہم کیا ہے، اور یہ باور کرایا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ اس بات پر راضی نہیں تھے کہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ خلیفہ کے انتخاب کی کارروائی چلائیں ۔ ابو مخنف رافضی، ہشام کلبی اور احمد جوہری نے یہ بیان کیا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے دونوں جانب ووٹ برابر ہونے کی صورت میں ترجیحی صلاحیت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو سونپ دی تھی جس سے علی رضی اللہ عنہ نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ اب خلافت ان کے ہاتھ سے نکل گئی کیوں کہ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سسرالی رشتہ کی وجہ سے عثمان رضی اللہ عنہ کو ہی ترجیح دیں گے۔[1]لیکن کیا یہ سچ ہے کہ دونوں میں رشتہ داری تھی۔ علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے عثمان اور عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کے درمیان کسی قریبی نسبی رشتہ داری کی نفی کی ہے۔ فرماتے ہیں : عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نہ تو عثمان رضی اللہ عنہ کے بھائی تھے نہ چچا زاد تھے اور نہ اصلاً آپ کے قبیلے سے ان کا تعلق تھا بلکہ یہ تو بنو زہرہ سے تھے اور عثمان رضی اللہ عنہ بنو امیہ سے، اور بنو زہرہ بنو امیہ کی بہ نسبت بنو ہاشم کی طرف زیادہ مائل تھے۔ بنو زہرہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ننھیال تھی یہ سب آپ کے ماموں لگتے تھے، اور انہی میں سے عبدالرحمن بن عوف اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہما تھے۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ((ہذا خالی فلیرنی امرؤ خالہ۔))[2] ’’یہ میرے ماموں ہیں ان جیسا کوئی اپنا ماموں دکھائے۔‘‘ اور اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرسے مہاجر اور انصاری سے انصاری کی مواخاۃ اصلاً نہیں کرائی تھی بلکہ مہاجرین اور انصار کے درمیان مواخاۃ کرائی تھی (کہ اس طرح ہی عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا عثمان رضی اللہ عنہ سے رشتہ ہوا ہو بلکہ) عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما کی مواخاۃ سعد بن ربیع انصاری رضی اللہ عنہ سے کرائی تھی۔[3] اور اس مواخاۃ سے متعلق حدیث صحاح و سنن وغیرہ میں مشہور و معروف ہے، اور اہل علم اس کو اچھی طرح جانتے ہیں [4]لیکن چونکہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے ولید بن عقبہ بن ابی معیط رضی اللہ عنہ کی بہن ام کلثوم بنت عقبہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی تھی[5] جو بنوامیہ سے تھیں ۔ اس رشتہ مصاہرت کی بنا پر شیعی روایات نے اتہامات کا طومار کھڑا کر دیا، اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ پر ناانصافی اور عثمان رضی اللہ عنہ کو خلافت کے لیے نا حق ترجیح دینے کا اتہام باندھ دیا۔ اور ایک طرف جہاں یہ بھول گئے کہ نسب کی قوت مصاہرت کی قوت پر مقدم ہے وہیں دوسری طرف قرون اولیٰ کے مسلمانوں کے درمیان تعلقات کی حقیقت کو فراموش کر دیا کہ ان کے تعلقات نسب و مصارت پر قائم نہیں تھے بلکہ ایمان و تقویٰ پر قائم تھے۔
[1] اثر التشیع علی الروایات التاریخیۃ ص: ۳۲۲۔ [2] صحیح سنن الترمذی: (۳؍۲۲۰) (۴۰۱۸) [3] البخاری: کتاب مناقب الانصار (۳۷۸۰) [4] منہاج السنۃ النبویۃ؍ ابن تیمیۃ : ۶؍۲۷۱۔۲۷۲۔ [5] الطبقات الکبریٰ: ۳؍۱۲۷۔