کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 389
۲۔ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ تنازل کی دعوت دیتے ہیں : جب شوریٰ کے ممبران جمع ہو گئے تو عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ آپ حضرات اپنا معاملہ اپنے میں سے تین کے حوالہ کر دیں : زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا میں اپنا معاملہ علی رضی اللہ عنہ کے حوالہ کرتا ہوں [1] اور طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اپنا معاملہ عثمان رضی اللہ عنہ کے حوالہ کرتا ہوں اور سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اپنا معاملہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے حوالہ کرتا ہوں ۔ اس تنازل سے مجوزہ امیدواروں کی تعداد تین ہو گئی، علی بن ابی طالب، عثمان بن عفان، عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم ۔ اس کے بعد عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے عثمان اور علی رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ آپ حضرات میں سے جو بھی خلافت سے اپنی براء ت ظاہر کرے گا ہم خلافت اسی کو دیں گے اور اللہ اس کا نگران و نگہبان ہو گا اور اسلام کے حقوق کی ذمہ داری اس پر لازم ہو گی۔ ہر شخص کو غور کرنا چاہیے کہ اس کے خیال میں کون افضل ہے۔ اس پر حضرات شیخین (عثمان و علی رضی اللہ عنہما ) خاموش ہو گئے۔ تو عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا آپ حضرات انتخاب کی ذمہ داری مجھ پر ڈالتے ہیں ۔ اللہ گواہ ہے کہ میں آپ حضرات میں سے اسی کو منتخب کروں گا جو سب میں افضل ہو گا۔ ان حضرات نے فرمایا: جی ہاں ۔[2] ۳۔ شوریٰ کی ادارت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے سپرد: یک شنبہ کی صبح ممبران شوریٰ کے اجتماع کے اختتام کے فوراً بعد عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے ملاقات و مشاورت شروع کر دی، مسلسل تین دن تک اسی میں لگے رہے یہاں تک کہ چہار شنبہ ۴ محرم کی صبح نمودار ہوئی۔ یہ اس مدت کی انتہا تھی جسے عمر رضی اللہ عنہ نے مقرر کیا تھا۔ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے مشاورت کا آغاز علی رضی اللہ عنہ سے کیا اور فرمایا: اگر اس منصب خلافت کے لیے آپ کے ہاتھ پر بیعت نہ کروں تو بھلا بتایئے اس منصب خلافت کے لیے آپ کس کا نام تجویز فرمائیں گے؟ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عثمان رضی اللہ عنہ کا نام۔ پھر عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان سے کہا اگر اس مسند خلافت کے لیے آپ کے ہاتھ پر بیعت نہ کروں تو بتایئے اس منصب خلافت کے لیے آپ کس کا نام تجویز کریں گے؟ عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا نام۔ اس کے بعدعبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس جا جا کر ان سے مشورہ طلب کیا۔ مدینہ میں کبار صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے جو بھی ملتا اس سے مشورہ طلب کرتے، فوجی قائدین و جرنیلوں اور جو بھی مدینہ آتا اس سے مشورہ کرتے یہاں تک کہ خواتین، بچوں اور غلاموں سے بھی ان کی رائے دریافت کرتے، اور اس مشاورت کا نتیجہ یہ رہا کہ بھاری اکثریت نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو خلافت کے لیے موزوں قرار دیا، جب کہ کچھ ہی لوگوں نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا نام پیش کیا، چنانچہ چہار شنبہ کی شب میں آپ اپنے بھانجے مسور بن
[1] البخاری: فضائل اصحاب النبی صلي الله عليه وسلم (۳۷۰۰) [2] ایضًا