کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 388
۳۔ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ۴۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ۵۔ زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ ۶۔ طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ ۲۔ طریقہ انتخاب خلیفہ: انہیں حکم دیا کہ کسی ایک کے گھر میں جمع ہو جائیں ، اور آپس میں مشورہ کریں ، اور اپنے ساتھ مشیر کی حیثیت سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو شامل کر لیں ، ان کی حیثیت صرف مشیر کی ہو گی، خلافت کا استحقاق نہ ہو گا۔ مشورہ کی مدت میں لوگوں کی امامت صہیب رومی رضی اللہ عنہ کروائیں گے، چنانچہ ان سے آپ نے فرمایا: ان تین دنوں میں تم نماز کے امیر ہو گے۔ آپ نے ان افراد شوریٰ میں سے کسی کو امامت نہیں سونپی، کیوں کہ ایسی صورت میں عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے یہ خلافت کے لیے نامزدگی تصور ہوتی۔[1]اور پھر مقداد بن اسود اور ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہما کو انتخابی کارروائی کا مراقب و نگراں مقرر فرمایا۔ [2] ۳۔ مدت انتخاب یا مشورہ: عمر رضی اللہ عنہ نے تین دن کی مدت اس انتخاب و مشورہ کے لیے متعین فرمائی کیوں کہ اس سے زیادہ کی صورت میں اختلاف وسیع تر ہوتے، اسی لیے آپ نے ان سے کہا کہ چوتھا دن نہ آنے پائے الایہ کہ امیر تم پر مقرر ہو۔[3] (۲)… شوریٰ کی ادارت میں عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا منہج ۱۔ مشاورت کے لیے مجلس شوریٰ کا اجتماع: ابھی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی تدفین سے لوگ فارغ ہی ہوئے تھے کہ شوریٰ اور اعلیٰ ریاستی کونسل کے ممبران نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں اپنا اجتماع منعقد کرنے میں جلدی کی تاکہ عمر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد مسلمانوں کی زندگی میں جو عظیم ترین مسئلہ رونما ہوا ہے اس کا حل تلاش کریں ، ممبران نے آپس میں گفت و شنید کی اور اپنی آراء و تجاویز پیش کیں ، اور اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ایک کلمہ پر متفق ہو گئے جسے خاص و عام تمام مسلمانوں نے پسند کیا۔ اور بعض روایات کے مطابق یہ اجتماع ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہ کی بہن فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے گھر میں منعقد ہوا تھا۔[4]
[1] الخلافۃ و الخلفاء الراشدون؍ البہنساوی ص (۲۱۳) [2] اشہر مشاہیر الاسلام فی الحرب والسیاسیۃ ص (۶۴۸) [3] الطبقات لابن سعد: ۳؍۳۶۴۔ [4] عثمان بن عفان ؍ صادق عرجون صفحہ: ۶۲،۶۳۔