کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 387
دوسرا باب ذوالنورین رضی اللہ عنہ کا استخلاف (۱)… استخلاف سے متعلق فقہ عمری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت وفات پائی تھی اس وقت سب ہی ابوبکر رضی اللہ عنہ کی افضلیت اور اسبقیت کے معترف تھے۔ اس وقت اختلاف کا احتمال نادر تھا، اور خاص کر جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول و فعل سے امت کی رہنمائی فرما دی تھی کہ آپ کے بعد خلافت کے لیے ابوبکر رضی اللہ عنہ زیادہ مستحق ہیں ۔اور جس وقت صدیق نے عمر رضی اللہ عنہما کو خلافت کے لیے نامرد کیا وہ بخوبی جانتے تھے کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو اس بات پر یقین و اطمینان حاصل ہے کہ آپ کے بعد خلافت کی ذمہ داری سنبھالنے کے لیے سب سے افضل و قوی عمر رضی اللہ عنہ ہیں ، اسی لیے کبار صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کر کے عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں خلافت کی باگ ڈور دے دی، اور کسی نے بھی ان کی اس رائے کی مخالفت نہ کی، اور عمر رضی اللہ عنہ کی بیعت خلافت پر اجماع ہو گیا۔[1] لیکن جدید خلیفہ کے انتخاب کا طریقہ یہ اختیار کیا گیا کہ شوریٰ کو مخصوص تعداد میں محصور کر دیا گیا، اور چھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کے لیے خاص کر دیا گیا، جن میں سے ہر ایک خلافت کے لیے مناسب و موزوں تھا اگرچہ ان کے مابین تفاوت موجود تھا، اسی طرح آپ نے طریقہ انتخاب اور اس کی مدت کی تحدید فرما دی، اور ان دونوں کی تعداد کی بھی تعیین فرما دی جو خلیفہ کے انتخاب کے لیے کافی تھے۔ اس مجلس انتخاب کے لیے حکم (فیصل) اور اگر ووٹ برابر ہوں تو مرجح کی بھی تعیین فرما دی، اور مجلس انتخاب میں انتخابی کارروائی کی نگرانی، فتنہ و فساد کو روکنے اور جماعت کی مخالفت کرنے والے کو سزا دینے کے لیے اللہ کے لشکر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی ایک جماعت کو مقرر فرمایا تاکہ اہل حل و عقد کی مجلس میں جو انتخابی کارروائی ہو اس میں نہ تو کوئی داخل ہو سکے اور نہ سن سکے۔[2] گزشتہ اجمال کی تفصیل ملاحظہ ہو: ۱۔ مجلس شوریٰ کے افراد کی تعداد اور ان کے اسمائے گرامی: ان کی تعداد کل چھ تھی اور وہ یہ حضرات تھے: ۱۔ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ۲۔ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ
[1] اولیات الفاروق؍ د۔ غالب عبدالکافی القرشی : صفحہ ۱۲۲۔ [2] اولیات الفاروق؍ د۔ غالب عبدالکافی القرشی ، صفحہ ۱۲۴۔