کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 385
آپ کی رائے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے یہاں مقدم رہتی، چنانچہ جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ارتداد کی تحریک کو کچل دیا تو روم پر چڑھائی کرنے اور مختلف اطراف میں مجاہدین کو روانہ کرنے کا ارادہ فرمایا، اور اس سلسلہ میں لوگوں سے مشورہ لینا شروع کیا، خرد مندوں نے اپنی اپنی باتیں آپ کے سامنے رکھیں ، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس سلسلہ میں مزید مشورہ طلب کرتے ہوئے فرمایا: آپ حضرات کی کیا رائے ہے؟ تو عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ اس امت کے خیر خواہ اور مشفق ہیں ، لہٰذا آپ کسی بات کو عام مسلمانوں کے لیے مفید سمجھیں تو اس کو کر گزریے، یقینا آپ پر کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔[1]
۲۔ دور صدیقی میں اقتصادی بحران اور عثمان رضی اللہ عنہ :
سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں بارش رک گئی، لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: بارش نازل نہیں ہوئی، فصلیں نہیں اگیں ، لوگ سخت بحران و پریشانی کا شکار ہیں ، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ لوگ جائیں اور صبر سے کام لیں ، شام تک اللہ تعالیٰ تمہاری اس پریشانی کو دور فرما دے گا۔ اتنے میں عثمان رضی اللہ عنہ کا تجارتی قافلہ سو اونٹوں پر گندم لادے شام سے مدینہ پہنچ گیا۔ اس کی خبر سن کر لوگ عثمان رضی اللہ عنہ کے دروازے پر پہنچ گئے۔ عثمان رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ گھر سے باہر تشریف لائے اور فرمایا: آپ حضرات کیا چاہتے ہیں ؟ لوگوں نے کہا: آپ جانتے ہیں یہ وقت قحط سالی کا ہے۔ بارش نازل نہیں ہوئی اور فصلیں نہیں اُگیں ، لوگ انتہائی پریشانی کا شکار ہیں ۔ ہمیں یہ اطلاع ملی ہے کہ آپ کے پاس گندم ہے، آپ اسے ہمیں فروخت کر دیں تاکہ ہم اسے فقراء و مساکین تک پہنچا دیں ۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بہت خوب! اندر تشریف لائیں اور خرید لیں ۔ تجار آپ کے گھر میں داخل ہوئے، دیکھا گندم رکھی ہوئی ہے۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے تاجروں سے کہا: آپ لوگ شام سے میری خریدوقیمت پر کتنا منافع دیں گے؟ انہوں نے کہا: دس کا بارہ دیں گے۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے اس سے زیادہ مل رہا ہے۔ تاجروں نے کہا: دس کا پندرہ لے لیجیے۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے اس سے زیادہ مل رہا ہے۔ تاجروں نے عرض کیا اے ابو عمرو مدینہ میں تو ہمارے علاوہ اور کوئی تاجر تو ہے نہیں ، تو کون آپ کو زیادہ دے رہا ہے؟ عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ہمیں زیادہ دے رہا ہے۔ ایک درہم کا دس درہم دے رہا ہے کیا آپ حضرات اس سے زیادہ دے سکتے ہیں ؟ لوگوں نے کہا: نہیں ہو سکتا۔ اس کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں اللہ تعالیٰ کو گواہ بناتا ہوں ، اس غلے کو میں نے مسلمانوں کے فقراء پر صدقہ کر دیا ہے۔[2]
[1] تاریخ دمشق؍ ابن عساکر (۲؍۶۳۔۶۵) ابوبکر الصدیق؍ الصلابی صفحہ (۳۶۴)
[2] الرقۃ و البکاء؍ ابن قدامۃ ، ص (۱۹۰)۔ الخلفاء الراشدون؍ حسن ایوب ، ص (۱۹۱)۔ شہید الدار؍ احمد الخروف، ص (۲۱)