کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 383
’’جو تین فتنوں سے بچ گیا اس نے نجات پا لی، میری موت، دجال، حق پر قائم خلیفہ کا مظلومانہ قتل۔‘‘ جس حق پر قائم خلیفہ کا مظلومانہ قتل ہوا وہ عثمان رضی اللہ عنہ ہیں ، کیوں کہ قرائن اسی پر دلالت کرتے ہیں اس حدیث میں خلیفہ سے مقصود عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ہیں ۔ اس حدیث میں (اللہ بہتر جانتا ہے) اس بات کی طرف عظیم اشارہ ہے کہ اس فتنہ کے سلسلہ میں حسی و معنوی ہر اعتبار سے اپنے دامن کو بچائے رکھنا چاہیے حسی کا تعلق اس فتنہ کے زمانہ سے ہے، یعنی قتل اور قتل پر ابھارنے اور اکسانے سے اجتناب کیا جائے اور معنوی کا تعلق یوں کہ دور فتنہ کے بعد اس سلسلہ میں باطل طرز فکر نہ اختیار کی جائے اور ناحق گفتگو کی جائے۔ اس طرح یہ تمام امت کے لیے عام ہو گا، فتنے کے دور کے ساتھ خاص نہیں ۔[1] ۲:…(( یقتل فیہا ہذا المقنع یومئذ مظلوما۔)) عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فتنہ کا ذکر کیا، اتنے میں ایک شخص کا گزر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((یقتل فیہا ہذا المقنع یومئذ مظلوما۔)) ’’اس فتنے میں اس وقت یہ سر چھپائے ہوئے شخص مظلومانہ طور سے قتل ہو گا۔‘‘ میں نے دیکھا وہ عثمان رضی اللہ عنہ تھے۔[2] ۳:… ((فإن ارادک المنافقون علی خلعہ فلا تخلعہ۔)) ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا، جب وہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف متوجہ ہوئے، جب ہم نے یہ دیکھا تو ہم خواتین ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو گئیں ، ہم نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان رضی اللہ عنہ کے دونوں کندھوں کے درمیان دست مبارک رکھا اور آخری بات تین بار یہ فرمائی: (( یا عثمان إن اللّٰہ عزوجل عسی أن یلبسک قمیصا، فإن ارادک المنافقون علی خلعہ فلا تخلعہ حتی تلقانی۔)) ’’اے عثمان امید ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں قمیص (خلافت) پہنائے گا۔ پس اگر منافقین اسے تم سے اتروانا چاہیں تو مت اتارنا یہاں تک کہ مجھ سے (جنت میں ) ملنا۔‘‘ [3]
[1] فتنہ مقتل عثمان/ د۔ محمد عبداللّٰہ الغبان: ۱/ ۴۴۔ [2] فضائل الصحابۃ: (۱/ ۵۵۱) إسنادہ حسن۔ [3] فضائل الصحابۃ:۱؍۶۳۱۔ اسنادہ صحیح