کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 381
کے لیے تنگ ہو گئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صحابہ کو رغبت دلائی کہ مسجد کے بغل میں ایک قطعہ ارض خرید کر مسجد کے لیے وقف کر دے تاکہ مسجد کی توسیع کر دی جائے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( من یشتری بقعۃ آل فلان فیزیدہا فی المسجد بخیر لہ منہا فی الجنۃ۔))
’’کون ہے جو فلاں کی زمین خرید کر مسجد میں اضافہ کر دے جس کو جنت میں اس سے بہترین جگہ ملے؟‘‘
یہ عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے مال میں سے [1] پچیس یا بیس ہزار درہم دے کر خرید لیا، پھر وہ جگہ مسجد نبوی میں شامل کر دی گئی۔[2]
اس طرح آپ نے مسلمانوں کے لیے وسعت پیدا کی۔[3]
۳۔ جیش عسرۃ اور سخي عثمان: …جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک کی طرف کوچ کرنے کا ارادہ فرمایا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو فوج کی تیاری کے لیے مال خرچ کرنے کی رغبت دلائی جسے روم سے ٹکرانے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیار کر رہے تھے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے حسب طاقت اس میں حصہ لیا اور بڑھ چڑھ کر مال دیے، لیکن عثمان رضی اللہ عنہ اس میدان میں سب سے سبقت لے گئے۔[4] اس کی تفصیل غزوہ تبوک کے بیان میں آچکی ہے۔
(۴)… سیّدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے سلسلہ میں احادیث نبویہ
۱:… ((ان عثمان رجل حیيُّ۔))
یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ ان کے والد سعید بن العاص نے انہیں خبر دی کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا اور عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ان کی چادر اوڑھے لیٹے ہوئے تھے، اتنے میں ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آنے کی اجازت طلب کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دی، وہ آئے اور اپنی ضرورت پوری کر کے چلے گئے، پھر عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دی اور وہ اپنی ضرورت پوری کر کے چلے گئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی حالت میں رہے۔ عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : پھر میں نے اجازت طلب کی تو آپ اٹھ کر بیٹھ گئے اور عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا اپنا کپڑا سمیٹ لو، مجھے اجازت دی میں نے اپنی ضرورت پوری کی اور واپس ہو گیا، عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا بات ہے جب ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہ آئے تو آپ اس طرح اٹھ کر نہیں بیٹھے جیسا کہ عثمان رضی اللہ عنہ کی آمد پر بیٹھے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((إن عثمان رجل حیيُّ و انی خشیت ان اذنت لہ علی تلک الحال أن لا یبلغ الی فی حاجتہ۔))[5]
[1] صحیح سنن الترمذی للالبانی: ۳؍۲۰۹۔ (۲۹۲۱)
[2] صحیح سنن النسائی:۲؍۷۶۶۔
[3] اعلام المسلمین؍ خالد البیطار (۳؍۴۱)
[4] الحکمۃ فی الدعوۃ الی اللّٰه صفحہ (۲۳۱)
[5] مسلم: ۲۴۰۲۔