کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 380
تھا، ہر کار خیر میں سبقت کرتے اور بے دریغ خرچ کرتے، فقر و محتاجی کا ذرا بھی خوف نہ کھاتے، بطور مثال بعض مواقع کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے جس میں عثمان رضی اللہ عنہ نے بے دریغ اپنا مال خرچ کیا:
۱۔ بئر رومہ: …جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے وہاں میٹھے پانی کی بڑی قلت تھی، بئر رومہ کے علاوہ کوئی کنواں نہ تھا جہاں سے میٹھا پانی حاصل کیا جا سکے، اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( من یشتری بئر رومۃ فیجعل دلوہ مع دلاء المسلمین بخیر لہ فی الجنۃ۔))[1]
’’جو بئر رومہ کو خرید کر مسلمانوں کے لیے عام کر دے اس کو جنت میں اس سے بہتر ملے گا۔‘‘
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( من حفر بئر رومۃ فلہ الجنۃ۔))[2]
’’جو بئر رومہ کو کھودے اس کے لیے جنت ہے۔‘‘
مدینہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے قبل رومہ کا پانی لوگ خرید کر پیا کرتے تھے۔ جب مہاجرین مدینہ پہنچے تو انہیں پانی کی ضرورت پڑی۔ بنی غفار میں سے ایک شخص کے پاس پانی کا ایک چشمہ تھا، جس کو رومہ کہا جاتا تھا، اور وہ ایک مشک ایک مد میں بیچتا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: ((تبیعہا بعین فی الجنۃ۔)) کیا تم اس کو جنتی چشمے کے عوض بیچو گے؟‘‘ اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے اور میری اولاد کے لیے اور کوئی ذریعے سے معاش نہیں ہے، یہ بات جب عثمان رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو انہوں نے اسے ۳۵ ہزار درہم میں خرید لیا، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا: کیا مجھے بھی وہی ملے گا جو آپ نے اس شخص کے لیے فرمایا تھا؟ آپ نے فرمایا: ہاں ، عثمان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: میں نے اس کو مسلمانوں کے لیے عام کر دیا ہے۔[3]
یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ ایک یہودی کا کنواں تھا جس کا پانی وہ مسلمانوں کو بیچتا تھا۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کو بیس ہزار درہم میں خرید کر غنی و فقیر اور مسافر سب کے لیے عام کر دیا۔[4]
۲۔ مسجد نبوي کي توسیع: …جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کی تعمیر مدینہ میں فرمائی تو مسلمان پنج وقتہ نماز اور خطبہ جمعہ سننے کے لیے جمع ہونے لگے، جس کے اندر انہیں اوامرو نواہی دیے جاتے تھے، اور اسی مسجد میں دین کی تعلیم کرتے اور یہیں سے تیار ہو کر غزوات کے لیے روانہ ہوتے۔ اس طرح مسجد لوگوں
[1] صحیح النسائی للألبانی ۲؍۷۶۶۔
[2] البخاری ( ۲۷۷۸)۔ تعلیقًا
[3] تحفہ الاحوذی بشرح الترمذی؍ المبارکفوری صفحہ (۱۹۶)
[4] فتح الباری: (۵؍۴۰۸)۔ الحکمۃ فی الدعوۃ الی اللّٰه صفحہ (۲۳۱)