کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 379
اور عثمان کی شادی حفصہ سے بہتر ام کلثوم سے کر دیتا ہوں ۔[1]
ام المومنین صدیقہ بنت صدیق رضی اللہ عنہ عثمان رضی اللہ عنہ سے ام کلثوم رضی اللہ عنہا کی شادی کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں : جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام کلثوم رضی اللہ عنہا کی شادی عثمان رضی اللہ عنہ سے کر دی تو ام ایمن رضی اللہ عنہا سے فرمایا: میری بیٹی ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو تیار کر کے عثمان کے یہاں رخصت کرو اور دف بجاؤ، ام ایمن رضی اللہ عنہا نے ایسا ہی کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین دن کے بعد ام کلثوم رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: میری بیٹی اپنے شوہر کو کیسا پایا۔ ام کلثوم رضی اللہ عنہا نے عرض کیا بہترین شوہر ہیں ۔[2]
۲۔ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کی وفات:
سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا بیمار پڑیں اور ۹ھ میں وفات پائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور تدفین کے وقت ان کی قبر کے پاس بیٹھے۔ انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ام کلثوم رضی اللہ عنہا کی قبر کے پاس بیٹھے ہوئے دیکھا، آپ کی دونوں آنکھیں اشکبار تھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں کون ہے جس نے آج رات بیوی سے مباشرت نہ کی ہو؟ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: میں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ان کی قبر میں اترو۔[3]
ام کلثوم رضی اللہ عنہا کی جدائی سے عثمان رضی اللہ عنہ بے حد متاثر ہوئے اور بڑے ہی حزن و ملال کا شکار ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا کہ غم میں نڈھال سر جھکائے جا رہے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے قریب ہوئے اور فرمایا: اے عثمان! اگر میرے پاس تیسری بیٹی ہوتی تو تم سے شادی کر دیتا۔[4]
یہ عثمان رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی دلیل ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے عثمان رضی اللہ عنہ کی وفاداری اور توقیر کی دلیل ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے اس بدشگونی کی نفی ہوتی ہے جو ہمارے معاشرے میں ایسے موقع پر پائی جاتی ہے۔ اللہ کے حکم کو کوئی ٹالنے والا نہیں اس کا حکم نافذ ہو کر رہتا ہے، تقدیر الٰہی ہرگز نہیں ٹلتی۔[5]
۳۔ اسلامی حکومت کی تعمیر میں اقتصادی تعاون:
عثمان رضی اللہ عنہ ان اغنیاء میں سے تھے جنھیں اللہ تعالیٰ نے مال و دولت سے نوازا تھا۔ آپ بہت بڑے تاجر تھے، مال و دولت کی انتہا نہ تھی، لیکن آپ نے اس مال و دولت کو اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی اطاعت میں لگا رکھا
[1] مستدرک حاکم (۴؍۴۹)۔ الآثار لابی یوسف صفحہ (۱۹۵۷)
[2] السیرۃ النبویۃ؍ ابو شہبۃ (۲؍۲۳۱)۔ دماء علی قمیص عثمان صفحہ (۲۲)
[3] البخاری: کتاب الجنائز (۱۳۴۲)
[4] مجمع الزوائد ؍الہیثمی: ۹؍۸۳۔ شواہد کی بنا پر اس کی سند درجہ حسن کو پہنچتی ہے۔
[5] الخلفاء الراشدون اعمال و احداث ؍ د۔ امین القضاۃ صفحہ (۷۳)