کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 377
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا اور عرض کیا یا رسول اللہ! عبداللہ سے بیعت لے لیجیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرمبارک اٹھایا اور اس کو تین مرتبہ انکار کی نگاہوں سے دیکھا اور پھر اس سے بیعت لے لی پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: کیا تم میں کوئی ایسا شخص نہیں تھا کہ مجھے بیعت سے ہاتھ کھینچتے ہوئے دیکھا ہوتا اور اس کی گردن قلم کر دیتا؟ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہمیں نہیں معلوم کہ آپ کے جی میں کیا ہے آپ نے کیوں نہیں اپنی آنکھوں سے اشارہ فرما دیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نبی کے لیے آنکھوں کی خیانت مناسب نہیں ۔[1]
اور ایک روایت میں ہے کہ جب مکہ فتح ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف چار اشخاص کے علاوہ سب کو امان دے دی، اور ان چار اشخاص کے سلسلہ میں فرمایا انہیں جہاں کہیں پاؤ قتل کر دو اگرچہ وہ خانہ کعبہ کا پردہ پکڑ کر لٹکے ہوئے ہوں : عکرمہ بن ابی جہل، عبداللہ بن خطل، مقیس بن حبابہ، عبداللہ بن سعد بن ابی سرح۔[2]
عبداللہ بن خطل خانہ کعبہ کا پردہ تھامے ہوئے پکڑا گیا، سعید بن حارث اور عمار بن یاسر دونوں اس کی طرف لپکے اور سعید نے آگے بڑھ کر قتل کر دیا۔ اور عکرمہ بن ابی جہل بھاگ کھڑے ہوئے اور جا کر کشتی پر سوار ہو کر فرار اختیار کرنا چاہا، تیز و تند آندھی چلی، کشتی والوں نے کہا: صرف اللہ کو پکارو، یہاں تمہارے معبود کام آنے والے نہیں ۔ عکرمہ نے کہا اللہ کی قسم! اگر سمندر میں اللہ کے سوا کوئی نہیں بچا سکتا تو خشکی میں بھی اس کے سوا کوئی نہیں بچا سکتا، اور دعا کی: اے اللہ! اگر تو نے مجھے بچا لیا تو میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دے دوں گا، اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور عفو و درگزر کرنے والا، کرم نواز پاؤں گا۔ اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کیا۔ اور عبداللہ بن سعد بن ابی سرح، عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس جا کر چھپ گئے اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بیعت کی اور دعوت دی تو عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں لا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا۔ اس روایت میں باقی حصہ گزشتہ روایت کی طرح ہے۔[3]
غزؤہ تبوک میں :
۹ھ میں ہر قل نے اپنا سازشی رخ جزیرہ عرب کی طرف اس کو ہڑپنے اور اس پر عدوان و سرکشی کے برے ارادے سے پھیرا، اور اپنی فوج کو تیاری کرنے کا اور حملہ کے لیے اس کے فرمان کے انتظار کا حکم جاری کیا، یہ خبریں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ میں پہنچیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو جہاد کی تیاری کا حکم فرمایا۔ سخت گرمی کا موسم تھا، جس میں پہاڑ بھی پگھل جائیں ، اور ملک میں سخت خشک سالی تھی، اگر مسلمان ایمان کی قوت سے مہلک گرمی کا مقابلہ کرتے ہوئے دہکتے ہوئے صحرا پر سے گزرتے ہوئے جہاد کے لیے نکل پڑیں تو سامان
[1] الصارم المسلول علی شاتم الرسول صلي الله عليه وسلم صفحہ (۱۰۹)
[2] اضواء البیان فی تاریخ القرآن؍ صابر بن ابی سلیمان صفحہ (۷۹)
[3] اضواء البیان فی تاریخ القرآن صفحہ (۸۰)۔