کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 376
سب ہی آپ کی بات کو یہ کہہ کر ٹالتے رہے کہ ’’محمد کبھی مکہ میں داخل نہیں ہو سکتے۔‘‘ [1] مشرکین نے عثمان رضی اللہ عنہ سے پیش کش کی کہ وہ خانہ کعبہ کا طواف کر لیں ، لیکن آپ نے انکار کر دیا۔[2]
عثمان رضی اللہ عنہ نے مستضعفینِ مکہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچایا، اور جلد مشکلات سے نجات پانے کی بشارت سنائی۔[3] اور ان سے زبانی پیغام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیا جن میں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام بھیجا تھا اور یہ کہا تھا کہ جو ذات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حدیبیہ پہنچا سکتی ہے وہ اس بات پر قادر ہے کہ آپ کو مکہ کے اندر داخل کر دے۔[4]
ابھی آپ مکہ ہی میں اپنی مہم میں لگے ہوئے تھے کہ مسلمانوں میں یہ افواہ گردش کرنے لگی کہ عثمان رضی اللہ عنہ قتل کر دیے گئے، ان حالات کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو مشرکین سے قتال کے سلسلہ میں بیعت کی دعوت دی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعوت پر لبیک کہتے ہوئے آپ کے ہاتھوں پر موت کی بیعت کی۔[5]صرف جد بن قیس نے اپنی منافقت کی وجہ سے بیعت نہ کی۔[6]
ایک روایت میں ہے کہ یہ بیعت صبر کی تھی۔[7] اور ایک روایت میں ہے کہ عدم فرار کی بیعت تھی۔[8] لیکن ان روایتوں میں کوئی اختلاف نہیں کیوں کہ موت کی بیعت کا مطلب صبر و عدم فرار کی بیعت ہے۔[9]
سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر ابوسنان عبداللہ بن وہب الاسدی رضی اللہ عنہ نے بیعت کی[10] اس کے بعد تمام لوگوں نے بیعت کی۔ [11]سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے اس موقع پر تین مرتبہ بیعت کی، شروع میں ، درمیان میں اور آخر میں ۔ [12]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ کے متعلق فرمایا: ’’یہ عثمان کا ہاتھ ہے‘‘ اور پھر اپنے دوسرے ہاتھ پر مار کر عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے بیعت کی۔
فتح مکہ میں عبداللہ بن سعد بن ابی سرح کے سلسلہ میں عثمان رضی اللہ عنہ کی سفارش:
فتح موقع پر عبداللہ بن سعد بن ابی سرح عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس جا کر چھپ گیا آپ نے اس کو لے کر
[1] زادالمعاد: ۳؍۲۹۰۔ السیرۃ النبویۃ؍ ابن ہشام (۳؍۳۴۴)
[2] زادالمعاد: (۳؍۲۹۰)
[3] زادالمعاد: (۳؍۲۹۰)
[4] غزوۃ الحدیبیۃ؍ ابو فارس صفحہ (۸۵)
[5] البخاری: ۴۱۶۹۔
[6] السیرۃ النبویۃ فی ضوء المصادر الأصلیۃ صفحہ (۴۸۶)
[7] البخاری: ۴۱۶۹۔
[8] مسلم: ۱۸۵۶۔
[9] السیرۃ النبویۃ فی ضوء المصادر الأصلیۃ صفحہ (۴۸۶)
[10] السیرۃ النبویۃ فی ضوء المصادر الأصلیۃ صفحہ (۴۸۶)
[11] زاد المعاد: ۳؍۲۹۶۔
[12] صحیح السیرۃ النبویۃ صفحہ (۴۰۴)