کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 375
میں واضح دلائل پیش کیے کیوں کہ ایسے شخص کے لیے جو دشمن کے پاس اتنی اہم مہم پر جا رہا ہو ضروری ہے کہ اس کی حفاظت و حمایت کے اسباب مہیا ہوں اور یہ چیز عمر رضی اللہ عنہ کو حاصل نہ تھی اسی لیے عثمان رضی اللہ عنہ کو اس مہم پر روانہ کرنے کا مشورہ دیا، عثمان رضی اللہ عنہ کا خاندان مکہ میں موجود تھا اور انہیں قوت حاصل تھی، وہ آپ کو مشرکین کی ایذا رسانی سے بچا سکتے تھے، اور اس طرح وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام قریش کو اچھی طرح پہنچا سکتے تھے۔[1] چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: مجھے اپنے سلسلہ میں قریش سے ڈر ہے۔ ان کے تئیں میری عداوت معروف ہے اور مکہ میں بنو عدی کا ایسا کوئی فرد نہیں جو ان کے مقابلے میں میری حمایت کر سکے، لیکن پھر بھی اگر آپ چاہتے ہیں تو میں ان کے پاس جانے کے لیے تیار ہوں ۔[2] اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ نہیں کہا۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ میں ایک ایسے شخص کی نشان دہی کرتا ہوں جو مکہ میں مجھ سے زیادہ معزز اور اس کے خاندان کے افراد زیادہ طاقتور ہیں وہ عثمان بن عفان ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان رضی اللہ عنہ کو بلایا اور فرمایا: تم قریش کے پاس جاؤ اور انہیں بتاؤ کہ ہم کسی سے قتال کرنے نہیں آئے ہیں ، ہم خانہ کعبہ کی زیارت اور اس کی حرمت کی تعظیم کے لیے آئے ہیں ، ہمارے ساتھ ہدی کے جانور ہیں ہم انہیں ذبح کریں گے اور واپس ہو جائیں گے۔
عثمان رضی اللہ عنہ اس مہم پر روانہ ہوئے، بلدح مقام پر پہنچے تو قریش کے لوگ انہیں وہاں ملے، انہوں نے آپ سے سوال کیا کہاں جا رہے ہیں ؟ فرمایا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارے پاس بھیجا ہے۔ وہ تمہیں اللہ اور اسلام کی طرف دعوت دیتے ہیں ، یقینا اللہ تعالیٰ اپنے دین کو ظاہر اور اپنے نبی کو غالب کر کے رہے گا۔ اگر یہ منظور نہیں ہے تو تم ان کا راستہ چھوڑ کر خاموش ہو جاؤ، دوسروں کو اس کے لیے چھوڑ دو، اگر وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر غالب آگئے تو تمہارا مقصد پورا ہو گیا اور اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم غالب آگئے تو پھر تمہیں اختیار ہو گا چاہے تم اس دین میں داخل ہو جاؤ جس میں لوگ داخل ہوئے ہیں یا پھر تم ان سے اس حالت میں قتال کرو جب کہ تمہاری تعداد زیادہ ہو اور قوت و طاقت حاصل ہو، کیوں کہ فی الحال جنگ نے تمہیں کمزور کر دیا ہے اور سورماؤں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔ عثمان رضی اللہ عنہ اپنی گفتگو جاری رکھے ہوئے تھے جو کفار کو ناگوار گزر رہی تھی، وہ آپ کی باتوں کو یہ کہہ کر ٹالتے جاتے تھے کہ جو آپ کہہ رہے ہیں ہم نے سن لیا ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ وہ زبردستی مکہ میں داخل نہیں ہو سکتے، آپ واپس جائیں اور اپنے ساتھی سے کہہ دیں کہ وہ یہاں نہیں آسکتے۔ یہ موقف دیکھ کر ابان بن سعید بن العاص نے آپ کو خوش آمدید کہا اور پناہ دی اور کہا آپ اپنی مہم سے رکیں نہیں پھر وہ اپنے گھوڑے سے اترا اور عثمان کو اپنے ساتھ سوار کر لیا اس طرح عثمان رضی اللہ عنہ مکہ میں داخل ہوئے۔فرداً فرداً سرداران قریش سے ملاقات کی۔ ابو سفیان بن حرب، صفوان بن امیہ وغیرہم جن سے بلدح میں ملاقات کی تھی، اور وہ لوگ جن سے صرف مکہ میں مقالات ہوئی
[1] المغازی: (۲؍۶۰۰)
[2] ایضًا