کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 374
کے ساتھ نکلے، ان کے ساتھ چند گھوڑے بھی تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ پر عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب مقرر فرمایا۔ ذوالقصہ مقام پر مسلمانوں نے غطفان کے ایک شخص جبار بن ثعلبہ کو گرفتار کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا، اس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غطفان کی پوری تفصیل سے آگاہ کیا اور بتلایا کہ وہ لوگ آپ سے مقابلہ نہیں کر سکتے۔ آپ کے نکلنے کی خبر سن کر ہی وہ لوگ پہاڑوں کی چوٹیوں پر جا چھپے ہیں ۔ میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اسلام کی دعوت پیش کی، اس نے اسلام قبول کر لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلال رضی اللہ عنہ کے ساتھ کر دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں کوئی بھی نہ آیا بخیر و عافیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپس ہو گئے، اس موقع پر کل گیارہ دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے باہر رہے۔[1] غزوئہ ذات الرقاع میں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع ملی کہ غطفان سے ثعلبہ اور أنمار کے لوگ مدینہ پر حملہ آور ہونے کا ارادہ کر رہے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار سو صحابہ کو لے کر صراصر پہنچ گئے اور روانگی سے قبل عثمان رضی اللہ عنہ کو مدینہ پر اپنا نائب مقرر فرمایا۔ غطفان کی ایک بڑی تعداد مسلمانوں کے مقابلہ میں نکلی لیکن جنگ نہ ہوئی، خوف و ہراس کا عالم رہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو صلوٰۃ الخوف پڑھائی اور آخرکار واپس ہو گئے، اس موقع پر آپ پندرہ روز مدینہ سے باہر رہے۔[2] بیعت الرضوان میں : بیعت رضوان کے موقع پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے مقام پر نزول فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوچا کہ ایک خصوصی سفیر قریش کے پاس روانہ فرمائیں جو ان کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقصد و موقف کی وضاحت کر دے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صلح و آشتی کا پیغام لے کر آئے ہیں قتال کا کوئی ارادہ نہیں ، مقامات مقدسہ کے احترام کے آپ حریص ہیں ، عمرہ کرنے آئے ہیں ، عمرہ ادا کر کے مدینہ واپس ہو جائیں گے اس سلسلہ میں اولاً انتخاب خراش بن امیہ الخزاعی رضی اللہ عنہ کا ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثعلب نامی اونٹ پر سوار کر کے انہیں روانہ کیا، لیکن جب یہ مکہ پہنچے تو قریش نے ان کے اونٹ کو مار ڈالا اور خراش رضی اللہ عنہ کے قتل کے درپے ہوئے لیکن احابیش نے انہیں بچا لیا۔ خراش رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں واپس آکر قریش کی رپورٹ پیش کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرا سفیر روانہ کرنے کا ارادہ فرمایا جو آپ کا پیغام قریش کو پہنچا سکے۔ آپ کی نظر انتخاب عمر رضی اللہ عنہ پر پڑی۔[3] لیکن آپ نے معذرت پیش کی اور عثمان رضی اللہ عنہ کو اس اہم مہم کے لیے منتخب کرنے کا مشورہ دیا،[4] اور اس سلسلہ
[1] الروض الأنف: ۳؍۱۳۷۔ الطبقات؍ ابن سعد: (۲؍۳۴،۳۵) [2] الامین ذوالنورین ؍ محمود شاکر صفحہ (۵۲، ۵۳) یہ غزہ ۷ھ میں پیش آیا تھا۔ دیکھیے: زاد المعاد: ۳؍۲۵۰۔۳۵۴۔ [3] غزوۃ الحدیبیۃ؍ ابوفارس صفحہ (۷۳) [4] المغازی؍ محمد بن عمر الواقدی : (۲؍۶۰۰)