کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 373
ہوئیں …لیکن اچانک معرکے کا توازن بگڑ گیا اور اس کا سبب یہ ہوا کہ جن تیر اندازوں کو پہاڑ کے اوپر مقرر کیا گیا تھا اور ان کی ڈیوٹی لگائی گئی تھی کہ معرکہ کا نتیجہ کچھ بھی ہو اپنی جگہ کو نہ چھوڑیں ان میں سے چند کے علاوہ بقیہ نے اپنی جگہ چھوڑ دی، اور پہاڑی سے اتر کر دوسروں کے ساتھ مال غنیمت جمع کرنے میں لگ گئے۔ تب تک خالد بن ولید نے جو قریشی شہسواروں کے قائد تھے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے شہسواروں کو لے کر عکرمہ بن ابی جہل کے ساتھ پیچھے سے مسلمانوں پر حملہ کر دیا۔ اولًا جو پہاڑی پر تیر اندازی باقی تھے جن میں عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ بھی تھے جو تیر اندازوں کے امیر تھے، انہیں قتل کیا پھر جو مسلمان بالکل غافل تھے اور مال غنیمت جمع کرنے میں مشغول تھے خالد بن ولید نے ان پر دھاوا بول دیا، مسلمان اس اچانک حملے سے اضطرابی کیفیت میں مبتلا ہو گئے اور ان کا ایک گروہ مدینہ کی طرف بھاگ کھڑا ہوا، انہی میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بھی تھے، یہ لوگ اس وقت تک واپس نہ ہو سکے جب تک کہ جنگ ختم نہ ہوئی، اور دوسرا گروہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قتل کی افواہ سن کر حریان و پریشان ہو کر رہ گیا، اور تیسرا گروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ڈٹا رہا۔ پہلے گروہ سے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں جو قیامت تک تلاوت کی جاتی رہیں گی:
﴿ إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطَانُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُوا ۖ وَلَقَدْ عَفَا اللَّـهُ عَنْهُمْ ۗ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ ﴾ (آل عمران: ۱۵۵)
’’تم میں سے جن لوگوں نے اس دن پیٹھ دکھائی، جس دن دونوں جماعتوں کی مڈ بھیڑ ہوئی تھی یہ لوگ اپنے بعض کرتوتوں کے باعث شیطان کے پھسلانے میں آگئے لیکن یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کر دیا، اللہ تعالیٰ ہے بخشنے والا اور تحمل والا۔‘‘
لیکن اہل بدعت اپنی خواہشات کے بندے ہوتے ہیں اور انہیں وہی نظر آتا ہے۔ انہیں میدان جنگ سے لوٹنے والوں میں صرف عثمان رضی اللہ عنہ ہی نظر آئے اس لیے وہ صرف آپ ہی کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں حالاں کہ آپ اس میں تنہا نہ تھے آپ کے ساتھ دیگر صحابہ بھی تھے۔[1]اور جب اللہ تعالیٰ نے ان سب کو معاف کر دیا تو پھر مسئلہ بالکل واضح ہو گیا کوئی التباس باقی نہیں رہا لہٰذا اس کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ پر انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی۔[2]
یہ کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نص قرآنی سے آپ کی معافی کا اعلان کر دیا، آپ کی جہادی زندگی مجموعی طور پر آپ کی شجاعت پر شاہد عدل ہے۔
غزوئہ غطفان میں :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو غطفان پر چڑھائی کی تیاری کا فرمان جاری کیا۔ چار سو افراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم
[1] الامین ذوالنورین صفحہ (۴۹)
[2] ذوالنورین مع النبی صلي الله عليه وسلم ؍ د۔ عاطف لماضۃ صفحہ (۳۲)