کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 372
رقیہ رضی اللہ عنہا نے لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت کے ساتھ موت کو لبیک کہا اور رفیق اعلیٰ سے جا ملیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار نہ ہو سکا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میدان بدر میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ اعلائے کلمۃ اللہ میں مشغول تھے، جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی لخت جگر رقیہ رضی اللہ عنہا کے جنازے میں شرکت نہ کر سکے۔ رقیہ رضی اللہ عنہا کی تجہیز و تکفین ہوئی، لوگ آپ کے پاک جسم کو کندھوں پر اٹھا کر قبرستان روانہ ہوئے، آپ کے شوہر عثمان رضی اللہ عنہ غمگین پیچھے پیچھے چلتے، جب جنازہ ’’بقیع‘‘ پہنچ گیا تو آپ کووہاں دفن کر دیا گیا، لوگوں کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ آپ کو دفن کر کے جب لوگ واپس آرہے تھے تو زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی پر سوار ہو کر فتح و نصرت کا مژدہ جانفزا لے کر مدینہ پہنچے، اور لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سلامتی اور مشرکین کے قتل و قید کی خوشخبری سنا رہے تھے۔ مسلمانانِ مدینہ کے چہروں پر فتح و نصرت کی ان خبروں سے خوشی امڈ آئی، عثمان رضی اللہ عنہ بھی انھی لوگوں میں سے تھے لیکن رقیہ رضی اللہ عنہا کے فراق کا غم چھپا نہ سکے۔
مدینہ واپسی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رقیہ رضی اللہ عنہا کی وفات کی خبر ملی، آپ بقیع تشریف لے گئے، ان کی قبر پر کھڑے ہو کر آپ نے بخشش و غفران کی ان کے لیے دعا کی۔[1]
عثمان رضی اللہ عنہ غزوہ بدر سے بزدلی یا راہ فرار اختیار کرتے ہوئے پیچھے نہیں ہوئے تھے جیسا کہ اہل بدعت کا زعم باطل ہے، اور نہ ان کے پیش نظر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت تھی، جو فضیلت اہل بدر کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں میدان بدر میں حاضری کی وجہ سے حاصل ہوئی وہ فضیلت عثمان رضی اللہ عنہ کو بھی حاصل ہوئی کیوں کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دوسروں کی طرح روانہ ہوئے تھے، لیکن خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لخت جگر رقیہ رضی اللہ عنہا کی تیمار داری کے لیے ان کو واپس کر دیا تھا، لہٰذا آپ کا بدر سے پیچھے رہنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرماں برداری میں تھا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے حصہ مقرر کیا، اور اس طرح آپ اہل بدر کے ساتھ مال غنیمت، فضیلت اور اجز و ثواب میں شریک رہے۔ [2]
غزوہ ٔاحد میں :
غزوہ احد کے اندر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ابتدائی مرحلہ میں فتح نصیب فرمائی، اور مسلمانوں کی تلواریں مشرکین کی گردن پر اپنا کام کرتی رہیں ، مشرکین کو ہزیمت و شکست میں شک نہ رہا اور مشرکین کے پرچم برداریکے بعد دیگرے ایک ایک کر کے قتل ہوتے رہے، اور پرچم سے قریب ہونے کی ہمت کسی میں باقی نہ رہی، اب مشرکین شکست خوردہ ہو چکے تھے اور خواتین جو گا گا کر دف بجا بجا کر ہمت دلا رہی تھیں سب کچھ چھوڑ کر آہ و بکا کرنے لگیں ، اور دف وغیرہ پھینک کر خوفزدہ ہو کر پنڈلیاں کھولے ہوئے پہاڑ کی طرف بھاگ کھڑی
[1] دماء علی قمیص عثمان بن عفان،صفحہ (۲۰)
[2] کتاب الامامۃ والرد علی الرفضۃ؍ الأصبہانی صفحہ (۳۰۲)