کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 371
چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو ہی رب بنائیں ، پس اگر وہ منہ پھیر لیں تو تم کہہ دو کہ گواہ رہو ہم تو مسلمان ہیں ۔‘‘
عثمان رضی اللہ عنہ نے جنگ و صلح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہ کر ہدایت نبوی میں تبحر حاصل کیا، اور اس صحبت سے آپ کو جنگی امور میں تجربہ و مہارت اور علم و واقفیت اور نفوس کے طبائع و رجحانات کی معرفت حاصل ہوئی، آئندہ صفحات میں ان شاء اللہ ہم مدنی زندگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہادی، سیاسی، اجتماعی اور اقتصادی میدان میں آپ کے مواقف و کردار کو بیان کریں گے۔
۱۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میدان جہاد میں :
مدینہ میں سکونت پذیر ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی حکومت کے ستونوں کو مضبوط کرنا شروع کیا، چنانچہ مہاجرین و انصار کے مابین مواخاۃ کرائی، ہر مہاجر کے حصے میں کوئی انصاری آیا۔ عثمان رضی اللہ عنہ کے حصے میں اوس بن ثابت رضی اللہ عنہ آئے۔[1]
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کی تعمیر فرمائی اور یہودیوں کے ساتھ معاہدے کیے۔ فوجی دستوں کی نقل و حرکت شروع ہوئی۔ نئے معاشرے میں اقتصادی، تعلیمی اور تربیتی تعمیر کا اہتمام فرمایا، عثمان رضی اللہ عنہ اسلامی حکومت کے ایک اہم ستون تھے مشورہ، رائے اور مال میں کوئی بخیلی نہیں کی، غزوئہ بدر کے علاوہ تمام غزوات میں شریک رہے۔[2]
غزوۂ بدر میں :
جب مسلمان غزوۂ بدر کے لیے روانہ ہوئے اس وقت عثمان رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ رقیہ رضی اللہ عنہا چیچک کی بیماری میں مبتلا تھیں ۔ لیکن اس کے باوجود جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے قریش کے تجارتی قافلے کو چھیڑنے کے لیے نکلنے کا حکم دیا عثمان رضی اللہ عنہ نے اس حکم کی تعمیل میں جلدی کی لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں منع کر دیا، اور رقیہ رضی اللہ عنہا کی تیمار داری کے لیے ان کو گھر پر محترمہ صابرہ و طاہرہ رقیہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ میں رہے۔ جب مرض بڑھ گیا اور موت کے آثار نمودار ہوئے اس حالت میں رقیہ رضی اللہ عنہا کو جب کہ موت نے انہیں گھیر رکھا تھا اپنے والد محترم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو بدر میں مشغول تھے اور اپنی ہمشیر زینب رضی اللہ عنہا کی دیدار کے انتہائی شوق میں بے تاب تھیں ، جو مکہ میں تھیں ۔ عثمان رضی اللہ عنہ آنسوؤں کے ساتھ ان پر ٹکٹکی لگائے ہوئے تھے اور جیسے غم سے دل پھٹا جا رہا تھا۔[3]
[1] الامین ذوالنورین ؍ محمود شاکر ، صفحہ (۴۰)
[2] الخلفاء الراشدون؍ عبدالوہاب النجار صفحہ (۲۶۹)
[3] نساء اہل البیت؍ احمد خلیل جمعہ (۴۹۱۔۵۰۴)