کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 367
حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کا شرف پہلی اور دوسری مرتبہ جن نفوس کو حاصل ہوا ان میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہما اور ان کی زوجہ محترمہ رقیہ رضی اللہ عنہا شامل ہیں ۔
یہ لوگ رجب۵ نبوی میں حبشہ پہنچے، وہاں انہیں امن و امان اور عبادت کی آزادی حاصل ہوئی، قرآن پاک نے ہجرت حبشہ کا ذکر کیا ہے۔ ارشاد الٰہی ہے:
﴿ وَالَّذِينَ هَاجَرُوا فِي اللَّـهِ مِن بَعْدِ مَا ظُلِمُوا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً ۖ وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ﴾ (النحل: ۴۱)
’’جن لوگوں نے ظلم برداشت کرنے کے بعد اللہ کی راہ میں ترک وطن کیا ہے ہم انہیں بہتر سے بہتر ٹھکانا دنیا میں عطا فرمائیں گے اور آخرت کا ثواب تو بہت ہی بڑا ہے کاش !لوگ اس سے واقف ہوتے۔‘‘
اس امت میں عثمان رضی اللہ عنہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے اپنی بیوی کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت فرمائی۔[1]رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((صحبہما اللّٰہ، إن عثمان لأول من ہاجر إلی اللّٰہ بأہلہ بعد لوط۔))[2]
’’ان دونوں کے ساتھ اللہ ہو ،یقینا عثمان لوط کے بعد پہلے شخص ہیں جنھوں نے اپنی بیوی کے ساتھ ہجرت کی ہے۔‘‘
جب یہ افواہ پھیل گئی کہ مکہ والے اسلام لے آئے ہیں اور یہ بات مہاجرین حبشہ کو پہنچی تو وہ لوگ مکہ کے لیے روانہ ہو گئے اور جب مکہ سے قریب پہنچے تو انہیں معلوم ہوا کہ یہ خبر جھوٹی تھی چنانچہ بعض اہل مکہ کی ضمانت میں مکہ میں داخل ہوئے، ان واپس آنے والوں میں عثمان اور رقیہ رضی اللہ عنہما بھی تھے۔[3] اس کے بعد آپ نے مکہ میں اقامت اختیار کی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مدینہ کی طرف ہجرت کا حکم فرمایا۔ آپ نے جب سے اسلام قبول فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کو لازم پکڑا صرف ہجرت کے وقت جدائی اختیار کی، اور وہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے یا پھر ایسی مہم کے موقع پر جہاں آپ ہی موزوں تھے آپ کا بدل کوئی نہیں ہو سکتا تھا۔ دیگر خلفائے راشدین کی طرح اس سلسلہ میں آپ کی بھی حالت رہی، گویا کہ یہ خلفائے راشدین کی ان بنیادی خصوصیات میں ہے جس کی بنیاد پر یکے بعد دیگرے خلافت کے مستحق بنے۔ [4]ذوالنورین رضی اللہ عنہ کا تعلق دعوت سے پہلے ہی سال سے مضبوط رہا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے خاص و عام امور آپ سے فوت نہ ہوئے یا آج کی اصطلاح میں یوں کہہ لیجیے کہ اسلامی سلطنت کی تاسیس کے اعمال میں سے کسی عمل سے آپ پیچھے نہ رہے۔[5]
[1] الصواعق المرسلۃ : ۱؍۳۱۴۔
[2] المعرفۃ والتاریخ: (۳؍۲۶۸) ضعیف الإسناد
[3] السیرۃ النبویۃ؍ ابن ہشام: (۱؍۴۰۲)
[4] عثمان بن عفان؍ العقاد: صفحہ (۸۰)
[5] عثمان بن عفان؍ العقاد: صفحہ (۷۸)