کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 366
عبدالرحمن بن عثمان القرشی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیٹی کے گھر تشریف لے گئے، اس وقت وہ عثمان رضی اللہ عنہ کا سر دھلا رہی تھیں ، اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بیٹی! ابو عبداللہ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو، یقینا وہ میرے صحابی ہیں ، اخلاق میں مجھ سے سب سے زیادہ مشابہ ہیں ۔‘‘ [1]
ابتلاء اور حبشہ کی طرف ہجرت
ابتلاء کی سنت الٰہی افراد و جماعت اور اقوام و ملل میں جاری ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں یہ سنت جاری رہی انہوں نے ان مصائب و آلام کا اس طرح مردانہ وار سامنا کیا جس سے دیوہیکل پہاڑ عاجز آجائیں ۔ اللہ کی راہ میں انہوں نے اپنے مال و خون بہایا اور مشقتیں برداشت کیں ، اعلیٰ حسب و نسب کے مسلمان بھی اس ابتلاء سے محفوظ نہ رہے۔ عثمان رضی اللہ عنہ بھی اپنے چچا حکم بن ابی العاص بن امیہ کے ہاتھوں اللہ کی راہ میں اذیت پہنچائے گئے۔ چچا نے آپ کو رسّی میں جکڑ دیا اور کہا: کیا تم نے اپنے باپ دادا کے دین کو چھوڑ کر نئے دین کو اختیار کر لیا ہے؟ میں تم کو اس وقت تک نہیں چھوڑوں گا جب تک کہ تم اس دین سے پھر نہیں جاتے۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: اللہ کی قسم!میں کبھی اس دین کو چھوڑ نہیں سکتا، جب حکم نے دین پر استقامت اور ان کی اپنے موقف میں صلابت دیکھی تو چھوڑ دیا۔[2]
ایذا رسانی کا سلسلہ تمام مسلمانوں کے ساتھ شدت اختیار کر گیا اور حد سے تجاوز کر گیا، یاسر اور ان کی بیوی رضی اللہ عنہما قتل کر دیے گئے۔ اس صورت حال سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سخت پریشان ہوئے اور مسلمانوں کے سلسلہ میں فکر مند ہوئے کہ ان کے لیے جائے سکون کہاں ہے؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حبشہ کا خیال آیا اور مسلمانوں سے فرمایا:
((لو خرجتم إلی الحبشۃ فإن بہا ملکا صالحا لا یظلم عندہ احد۔))
’’اگر تم حبشہ چلے جاؤ تو بہتر ہو گا، وہاں صالح بادشاہ ہے اس کے یہاں کسی پر ظلم نہیں ہوتا ہے۔‘‘ [3]
حبشہ کی طرف ہجرت کا آغاز ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الم زدہ ہوئے، آپ دیکھ رہے تھے کہ مسلمان چپکے چپکے مکہ سے نکل رہے ہیں [4] اور سمندری سفر کر رہے ہیں ۔ بعض سواری پر اور بعض پیدل چل کر بحر احمر کے ساحل پر پہنچے پھر سب نے عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کو اپنا امیر بنا لیا، اللہ کی مشیت سے انہیں دو کشتیاں مل گئیں اور نصف نصف دینار کے عوض سب سوار ہو گئے۔ جب قریش کو ان کے سلسلہ میں خبر ملی تو جلدی سے ساحل سمندر پہنچے لیکن دونوں کشتیاں روانہ ہو چکی تھیں ۔[5]
[1] الطبرانی، اس کے رواۃ ثقات ہیں ، دیکھیے مجمع الزوائد ، رقم: (۱۴۵۰۰)
[2] التمہید و البیان: صفحہ ۲۲۔
[3] الہجرۃ فی القرآن الکریم صفحہ ۲۹۰۔ السیرۃ النبویۃ لابن ہشام (۱؍۴۱۳)
[4] دماء علی قمیص عثمان صفحہ (۱۵)۔ الطبقات: ۱؍۲۰۴۔
[5] الطبقات لابن سعد: ۱؍۲۰۴۔ تاریخ الطبری: ۲؍۶۹۔