کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 356
مالک تھے، استقامت وعدالت پر سختی سے کاربند تھے، آپ نے اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی، نبی( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی تمناؤں کو پورا کیا اور مستحکم انداز میں انہیں نافذ کیا، ابوبکر ( رضی اللہ عنہ) کی مختصر سی مدت خلافت میں اپنے مشورہ اور نصیحتوں سے ان کی تائید کی اور اسلامی سلطنت کے زیر نگیں تمام مفتوحہ ممالک میں کامیاب اور پرحکمت نظام کے لیے نہایت مضبوط اصول وضع کیے، دور دراز ممالک میں فتح وغلبہ کے وقت اسلامی افواج کے محبوب نظر بڑے بڑے جرنیلوں اور قائدوں پر شفقت کا مضبوط ہاتھ رکھنا اور انہیں تمام تائیدات سے نوازنا آپ کی فرماں روائی کی معجزانہ صلاحیت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ آپ نے اپنی اخلاقی سادگی و تواضع کے اظہار، دنیوی چمک دمک اور عیش و عشرت کی تحقیر میں نبی( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ابوبکر کو اپنے لیے نمونہ بنایا اور فاتح قائدین اور جرنیلوں کے نام خطوط لکھنے، نیز انہیں ہدایات وتعلیمات دینے میں انہیں دونوں کے نقش قدم پر چل کر دکھایا۔‘‘[1] ج: ڈاکٹر مائیکل ہارٹ کا کہنا ہے کہ عمر ( رضی اللہ عنہ ) کے نقوش یقینا اثر انداز ہونے والے ہیں ۔ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے بعد اسلام کی نشرواشاعت میں آپ کی شخصیت کا اہم مرکزی کردار رہا۔[2] آپ کی فتوحات کی تیز رفتاری کو اگر تسلیم نہ کیا جائے تو یہ شبہ ہوتا ہے کہ آج جتنے وسیع رقبہ میں اسلام موجود ہے اس حد تک اسلام کیسے پھیلا، جب کہ بیشتر علاقے جنہیں مسلمانوں نے فتح کیا تھا وہ آج بھی عرب ہیں اور ہم انہیں دیکھ سکتے ہیں ۔ ایک بات جو بالکل واضح ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام کی نشرو اشاعت کے میدان میں محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہی کا سب سے بڑا ہاتھ ہے، لیکن اس موقع پر اگر ہم عمر ( رضی اللہ عنہ ) کے دور حکومت اور ان کی زندہ قیادت سے چشم پوشی کرتے ہیں تو یہ ہماری صریح غلطی ہوگی۔‘‘[3] الغرض خلیفہ راشد و عادل عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی وفات کو ذکر کرتے ہوئے گویا میں انسانی عظمت کی تاریخ کا ایک تابناک باب بند کر رہا ہوں ، انسانی تاریخ نے آپ کو منفرد منہج کا منفرد آدمی شمار کیا ہے۔ آپ کی تگ و دو مال جمع کرنے کے لیے نہ تھی، شیطان کی چالیں آپ کو بہکا نہ سکیں ، نہ ہی اقتدار کا نشہ آپ کو راہِ حق سے بھٹکا سکا اور نہ ہی اقرباء پروری وخاندان نوازی آپ کو ظالم بنانے میں کامیاب ہوئی، بلکہ آپ کی پوری کوشش یہ تھی کہ اسلام کو سر بلندی ملے اور سب سے بڑی تمنا یہ تھی کہ اسلامی شریعت کی قیادت ہو اور پوری رعایا عدل وانصاف کی نعمت سے مالا مال ہو۔ چنانچہ اللہ عزوجل کے فضل وکرم سے نہایت مختصر سی مدت میں یہ ساری چیزیں دیکھنے کو ملیں ۔[4]
[1] الفاروق عمر بن خطاب، محمد رشید، رضا، ص: ۵۵۔ [2] ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مائل ہارٹ صاحب کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کی سیرت سے اچھی طرح واقفیت نہیں ہے۔ [3] وفات نبوی کے بعد دور فاروقی ہی نہیں بلکہ دور صدیقی اور ان کی بیدار قیادت سے چشم پوشی کرنا بھی کھلی غلطی ہے۔ [4] جولۃ فی عصر الخلفاء الراشدین، ص:۲۹۷۔