کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 355
س: علی طنطاوی کہتے ہیں : ’’عمر رضی اللہ عنہ کی سیرت وخصائص کے بارے میں جیسے جیسے میری معلومات میں اضافہ ہوتا گیا آپ کے ساتھ میری دلچسپی اور عقیدت بڑھتی گئی، میں نے مسلم اور غیر مسلم ہزاروں عظیم شخصیتوں کی سیرتوں کا مطالعہ کیا، تو دیکھا کہ کوئی فکر و دانائی میں بلند ہے، کوئی زبان و بیان میں ، کسی کو اخلاقیات میں برتری حاصل ہے تو کسی کے نقوش و کارنامے سب سے اعلیٰ ہیں ۔ گویا سب کی الگ الگ خصوصیات ہیں ۔ لیکن جب میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو پڑھا تو دیکھا کہ ہر چہار جانب سے ان پر عظمتوں کا تاج ہے۔ آپ بلندیٔ فکر کے حامل ہیں اور اخلاق و بیان کے بھی شہ سوار ہیں ۔ اگر آپ نامور فقہائے امت و علمائے اسلام کو شمار کرنا شروع کریں تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو سرفہرست پائیں گے، اگر خطباء و بلغاء کی فہرست دیکھیں تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا نام سب سے پہلے دیکھیں گے، اگر قانون دانی کے ماہروں ، فوجی سپہ سالاروں کے ممتاز دانش وروں اور کامیاب حکمرانوں کے سرکردہ افراد کا ذکر چھیڑیں تو عمر رضی اللہ عنہ کو ہر گروہ میں پیش پیش اور ان کا امام پائیں گے اور اگر حکومت ومملکت آباد کرنے والے اور زمین میں اپنے آثار و نقوش چھوڑنے والے دنیا کے بڑے بڑے انسانوں کو تلاش کریں تو ان میں عمر رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر بلند مقام اور شرف وعظمت والا کوئی نظر نہ آئے گا۔ مزید برآں آپ اخلاق کے دھنی اور تواضع کے شاہکار تھے۔‘‘[1] ۹: عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں بعض مستشرقین کے اقوال: الف:ولیم میور اپنی کتاب ’’الخلافہ‘‘ میں لکھتا ہے: ’’سادگی اور فرض منصبی کی ادائیگی عمر ( رضی اللہ عنہ ) کے اہم اصولوں میں شامل تھی، غیر جانبداری اور اخلاص آپ کی حکومت کی نمایاں خصیوصیت تھی، آپ ذمہ داری کا پورا پورا لحاظ رکھتے تھے، عدل کا احساس ہمیشہ غالب رہتا تھا، افسران کے انتخاب میں کبھی بے جا طرف داری نہ کی، باوجودیہ کہ آپ اپنا درہ ہمیشہ ساتھ رکھتے اور مجرم کو بروقت سزا دیتے اور جس درہ کے بارے میں یہاں تک کہا گیا کہ دوسروں کی تلوار کے مقابلے میں عمر ( رضی اللہ عنہ ) کا درہ کافی ہوتا تھا، آپ نرم دل تھے، شفقت و مہربانی سے بھرپور آپ کے کارنامے رہے۔ اس کی مثال بیواؤں اور یتیموں پر آپ کی بے انتہا شفقت ہے۔‘‘[2] ب: برطانوی دائرۃ المعارف کی شہادت ہے کہ ’’عمر( رضی اللہ عنہ ) عقل مند اور دور اندیش حاکم تھے، آپ نے اسلام کے لیے بہت عظیم خدمات انجام دی ہیں ۔‘‘[3] ت: واشنگٹن اِرونگ اپنی کتاب ’’محمد اور ان کے خلفاء‘‘ میں لکھتا ہے: ’’عمر ( رضی اللہ عنہ ) کی اوّل تا آخر پوری زندگی اس بات کی دلیل ہے کہ آپ بڑی ذہنی صلاحیتیوں کے
[1] أخبار عمر، ص: ۵۔ [2] الفاروق عمر بن خطاب، محمد رشید، رضا، ص: ۵۴، ۵۵۔ [3] الفاروق عمر بن خطاب، محمد رشید، رضا، ص: ۵۴، ۵۵۔