کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 354
شفیق و مہربان تھی۔ عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی شخصیت کی معرفت موجودہ دور کی تباہی و بیماری کے لیے تریاق ہے کہ جس سے شفا کی آخری امید لگائے ہوئے ہر بیمار کو شفا مل سکتی ہے۔‘‘[1]
ت: ڈاکٹر احمد شلبی کہتے ہیں : ’’سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کی مدت خلافت میں جو نت نئے احوال و حوادث سے بھری ہوئی ہے، اجتہادی کارنامے آپ کی زندگی کے سب سے نمایاں پہلو ہیں ۔ آپ نے دین کی حفاظت کی، جہاد کا پرچم بلند کیا، ممالک کو فتح کیا، عدل وانصاف کو رواج دیا، اسلامی تاریخ میں سب سے پہلے وزارت خزانہ کی بنیاد رکھی، ملکی دفاع اور سرحدوں کی حفاظت کے لیے منظم فوجی نظام قائم کیا، فوج کی تنخواہیں مقرر کیں ، وظائف جاری کیے، ہر شعبہ کے لیے رجسٹر تیار کرائے، گورنران، افسران اور قاضیوں کو عہدوں پر فائز کیا، زندگی کو بہتر اور ہموار بنانے کے لیے سکے جاری کیے، ڈاک کا نظام وضع کیا، محکمہ قائم کیا، ہجری تاریخ کی بنیادی ڈالی، مفتوحہ زمین کو ذمیوں کے ہاتھ میں باقی رکھا، اسلامی شہروں کی خاکہ بندی کی اور انہیں بسایا، لہٰذا حق کا تقاضا ہے کہ آپ کو امیرالمومنین اور اسلامی سلطنت کا موسس کہا جائے۔‘‘[2]
ث: علی علی منصور کا کہنا ہے کہ: ’’آج سے چودہ سو سال پہلے عدلیہ کے باب میں عمر رضی اللہ عنہ نے ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کے نام جو خطوط لکھے تھے وہ عدل و قضا اور منصفی کے محکموں کے لیے آج بھی دستور کی حیثیت رکھتے ہیں ، وہ خطوط عدلیہ کی خود مختاری اور فوجداری کے قوانین کی کامل ترین شکل ہیں ۔‘‘[3]
ج: محمود شیت خطاب کا کہنا ہے: ’’اسلامی فتوحات کی وسعت کے اگرچہ کئی اسباب ہیں ، لیکن ان میں اہم اور سرفہرست عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی منفرد اوصاف کی حامل قیادت کا حصہ ہے، جو آپ کے علاوہ پوری تاریخ میں نظر نہیں آتی اس کا وجود نادر ہے۔[4]
ح: ڈاکٹر صبحی محمصانی کا قول ہے کہ ’’خلیفہ راشد عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا دور ختم ہونے کے ساتھ ایک وسیع ومستحکم اسلامی سلطنت کے بانی کا دور ختم ہوجاتا ہے۔ آپ ایک فاتح قائد، باشعور و عالی ہمت امیر، ذمہ دار نگران، مہربان، نرم دل، انصاف پسند اور قوی حاکم تھے، آپ نے فرض منصبی کی ادائیگی اور سچائی و نیکی کی چوکھٹ پر خود کو قربان کر دیا، اللہ کے برگزیدہ بندوں ، صدیقین اور صالحین کی فہرست میں آپ نے بھی اپنا نام درج کروا لیا، (ان شاء اللہ)۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا نام انسانی تہذیب و تمدن اور فقہ و بصیرت اور تمدن کی تاریخ میں ہمیشہ چمکتا ہوا باقی رہے گا۔‘‘[5]
[1] الإدارۃ فی الإسلام فی عہد عمر بن الخطاب، ص:۳۹۲۔
[2] ایضًا، ص:۳۹۲، التاریخ الإسلامی: ۱؍۶۰۹۔
[3] الإدارۃ فی الاسلام فی عہد عمر بن الخطاب، ص:۳۹۲۔
[4] ایضًا، ص: ۳۹۳۔
[5] تراث الخلفاء الراشدین فی الفقہ والقضاء، ص:۴۶، ۴۷۔