کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 353
گیا، دیکھا تو وہ ایک سائبان کے نیچے بیٹھے تھے، وہ نیچے سے سرخ و رو اون اور اوپر سے موٹا اون لگا ہوا تھا۔ اس کے اردگرد چار انگیٹھیاں جل رہی تھیں ،[1] جب شدید سردی سے میرے دانتوں کے بجنے کی آواز سنی تو کہا: مجھے لگتا ہے کہ آج شدید سردی ہے۔ میں نے کہا: اللہ آپ کا بھلا کرے! شام والوں کو کیا معلوم کہ ان پر اس سے بھی زیادہ سخت سرد دن آسکتا ہے۔ پھر دنیا کی چمک دمک کا ذکر کرتے ہوئے اس کی مذمت کی اور کہا: معاویہ یہاں چالیس سال رہے بیس سال امیر اور بیس سال خلیفہ بن کر رہے، واقعتا ابن حنتمہ (یعنی عمر رضی اللہ عنہ ) بہت زیرک اور دنیا کے کی سیاست سے واقف تھے۔[2]
۸: عمر رضی اللہ عنہ کی مدح سرائی دور حاضر کے علماء وادباء کی زبانی:
الف:ازہر یونیورسٹی مصر کے سابق شیخ الازہر ڈاکٹر محمد محمد الفحام کہتے ہیں : ’’سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کے کارنامے آپ کی سیاسی برتری کا لوہا منواتے ہیں ، مختلف خدا داد صلاحیتوں اور ہمیشہ باقی رہنے والی بے مثال عبقریت کو نمایاں کرتے ہیں ، جو آپ کی خلافت کی زندگی میں پیش آنے والے مشکلات و حوادث کی طرح ہماری زندگی کی مختلف مشکلات وحوادث سے نمٹنے میں ہمارے سامنے چراغ راہ بنتے ہیں ۔‘‘[3]
ب: مصر کے ایک نامور ادیب عباس محمود عقاد کہتے ہیں : ’’ناموران اسلام پر نقد و تبصرہ کے سلسلہ میں اس عظیم شخصیت (عمر فاروق) پر تنقید و تبصرہ کرنا میری زندگی کا مشکل ترین کام رہا ہے اور مزید خصوصیت یہ ہے کہ فرط تحقیق اور فرط اعجاب آپ کے خلاف یا آپ کے حق میں حکم لگانے میں ساتھ ساتھ رہتے ہیں ۔ میری کتاب ’’عبقریۃ عمر‘‘ ان تاریخی کتابوں کے طرز پر عمر رضی اللہ عنہ کی سیرت اور آپ کے دور کی تاریخ کی کتاب نہیں ہے جس کا مقصد صرف واقعات وحوادث کو بیان کرنا ہوتا ہے، بلکہ یہ کتاب آپ کی صفت کی عکاس ہے۔ اس میں آپ کی حکومت کے مختلف مراحل پر تحقیقی تبصرہ ہے اور آپ کی عظمت و بڑائی کی خصوصیات اور نیز علم نفس، علم اخلاق اور زندگی کے حقائق میں ان خصوصیات سے استفادہ کرنے کا لائحہ عمل ہے۔
اس وقت ہم جس دور سے گزر رہے ہیں سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کو بالکل اسی جیسے دور کا آدمی شمار کیا جاتا ہے۔ اس لیے کہ آج بھی ظالمانہ قوت واقتدار کی پوجا عام ہو چکی ہے اور کمزور عقیدہ کے بزدل لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ طاقت اور حق اکٹھے نہیں ہو سکتے، لہٰذا اگر ہم عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جیسے ایک عظیم اور طاقتور حاکم، قائد وسپہ سالار کو سمجھ لیں گے تو اس بنیاد پر ظالمانہ اقتدار و قوت کو توڑنے میں یقینا کامیاب ہو جائیں گے۔ اس لیے کہ ہم نے ایک ایسی عظیم شخصیت کو سمجھا ہے جو بے حد طاقتور ہونے کے ساتھ مثالی عدل پرور اور بے انتہا
[1] محض الثواب، ص: ۳؍۹۱۱۔
[2] محض الصواب: ۳/۹۱۱، مناقب امیرالمومنین، ص: ۲۵۲۔
[3] الإدارۃ فی الإسلام فی عہد عمر بن الخطاب، ص:۳۹۱۔