کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 352
خ: سیّدناعباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا پڑوسی تھا، میں نے ان سے بہتر کسی کو نہ دیکھا، آپ نے اپنی راتیں نماز کے لیے اور دن روزہ اور لوگوں کی ضروریات کی تکمیل کے لیے وقف کر دیے تھے۔ جب آپ کی وفات ہوگئی تو میں نے اللہ سے دعا کی کہ اے اللہ! مجھے عمر رضی اللہ عنہ کو خواب میں دکھا دے۔ چنانچہ میں نے خواب میں دیکھا کہ وہ مدینہ کے بازار سے جسم پر تلوار لٹکائے ہوئے واپس آرہے ہیں ، میں نے انہیں سلام کیا اور انہوں نے میرے سلام کا جواب دیا۔ پھر میں نے ان سے خیریت پوچھی، تو آپ نے کہا: میں خیریت سے ہوں ، میں نے پوچھا: آپ کو وہاں کیا ملا؟ انہوں نے کہا: اب جب کہ میں حساب دے چکا ہوں راحت میں ہوں ، ورنہ اگر میرا رب رحیم نہ ہوتا تو میرا معاملہ الٹا ہونے والا تھا۔[1] د: معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ’’نہ ابوبکر دنیا کے طلب گار ہوئے نہ دنیا ان کی طلب گار ہوئی۔ رہے عمر، تو ان کو دنیا نے چاہا لیکن انہوں نے اسے نہیں چاہا۔ اور رہے ہم (تو ہماری دنیا طلبی کا یہ حال ہے کہ) ہم دنیا میں دنیا کے لیے لوٹ پوٹ رہے ہیں ۔‘‘[2] ذ: ابن ابی حازم اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے کہا کہ علی بن حسین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک کیا مقام و مرتبہ تھا؟ انہوں نے کہا: جو مقام آج ہے، کہ وہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں بائیں مدفون ہیں ۔[3] ر: شعبی سے روایت ہے کہ میں نے قبیصہ بن جابر کو فرماتے ہوئے سنا: میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہا ہوں ۔ میں نے ان سے زیادہ قرآن کی تلاوت کرنے والا، دین کا علم و فہم رکھنے والا اور دینی مذاکرہ کرنے والا کسی کو نہیں دیکھا۔[4] ز: حسن بصری کا قول ہے کہ: اگر تم اپنی مجلس میں تازگی لانا چاہتے ہو تو عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عادات وخصائل اور کارناموں کا تذکرہ کرو۔[5] اور کہا: جس گھرانے میں عمر رضی اللہ عنہ کی کمی نہ محسوس کی گئی وہ گھرانہ برا گھرانہ ہے۔[6] س: علی بن عبداللہ بن عباس کا بیان ہے کہ: ایک مرتبہ میں سخت سردی کے دن عبدالملک بن مروان کے پاس
[1] تاریخ المدینۃ: ۳/۳۴۵، اس کی سند منقطع ہے۔ الحلیۃ: ۱/۵۴۔ [2] تاریخ الإسلام فی عہد الخلفاء الراشدین، ذہبی، ص:۲۶۷۔ [3] محض الصواب: ۳/ ۹۰۸۔ [4] المعرفۃ والتاریخ، فسوی: ۱/۴۵۷، اس کی سند میں مجالدبن سعد ایک راوی ہے ، جس کا حافظہ آخری عمر میں کمزور ہوگیا تھا۔ [5] مناقب أمیرالمومنین، ابن الجوزی، ص:۲۵۱۔ [6] الطبقات الکبرٰی، ابن سعد: ۳/۳۷۲۔